زمین پر چیونٹیوں کی کل تعداد تمام سابقہ اندازوں سے زیادہ ہے۔ امریکی ادارے کی نئی تحقیق

واشنگٹن (پاک ترک نیوز)
زمین پر 20 ہزار کھرب سے زائد چیونٹیاں موجود ہیں جبکہ کیڑوں مکوڑوں کی کُل تعداد اس سےکئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے جو کہ زمین کے ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہیں۔
یہ انکشاف امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹیوں کی کُل آبادی کا تعین ان کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننے کے لیے ضروری ہے جن میں سے ایک موسمیاتی تبدیلیوں کا معاملہ بھی ہے۔
زمینی نظام میں چیونٹیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں، وہ بیجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور شکاری یا شکار کے طور پر بھی کام آتی ہے۔پیر کو شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرین نے 465 تحقیقات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ دلچسپ حقائق یکجا کئے ہیں۔اس سے قبل بھی عالمی سطح پر چیونٹیوں کی تعداد کے حوالے سے تحقیق ہو چکی ہے تاہم اس وقت جو تعداد سامنے آئی تھی وہ 20 ہزار کھرب سے بہت کم تھی ۔
این اے ایس کے ماہرین کے مطابق مقامی سطح پر کی جانے والی465تحقیقات انفرادی سطح پر چیونٹیوں کی تعداد بتائی گئی تھی۔جنہیں تارہ رپورٹ میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب تک ایسی سینکڑوں تحقیقات ہو چکی ہیں جن میں کسی خاص وقت میں چیونٹیوں کے کسی خاص مقام سے گزرنے کو محدود کر کے انہیں گنا جاتا تھا یا پھر مختلف پتے رکھ کر ان پر چڑھنے والی چیونٹیوں کا جائزہ لیا جاتا تھا۔تاہم اس کے نتیجے میں چیونٹیوں کی جو تعداد سامنے آتی رہی ہے وہ بہت کم تھی۔اس لیے یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ عالمی سطح پر چیونٹیوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم کیڑے مکوڑوں کی متنوع زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے معلومات کے خلا کو پر کریں۔اس وقت دنیا میں چیونٹیوں کی 15 ہزار سات سو کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ جبکہ ماہرین کی جانب سے بتائی جانے والی تعداد کو حتمی تصور کرنا ابھی مشکل ہے۔چیونٹیوں کی تخمینی تعداد کی بنیاد پر ان کا بائیوماس 12 میگا ٹن خشک کاربن سمجھا جاتا ہے جو کہ جنگلی پرندوں اور ممالیہ جانوروں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے جبکہ انسانوں کا 20 فیصد تک ہے۔
مستقبل قریب میں ماہرین ان عوامل اور ماحول پر تحقیق کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو حشرات الارض پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

#aunt#california#life#PakTurkNews#research#washington#washingtondcAmerica