سہیل شہریار
گذشتہ روز کے عدالتی فیصلے کے بعد دوستوں کی محفل میں ملکی کے مجموعی حالات ، ملکی معیشت اور ملک کے مستقبل کے بارے میں گرما گرم بحث جاری تھی ۔ اس بات پر سبھی کا اتفاق تھا کہ صورتحال دگر گوں تاہم اس خانہ خرابی کی نوعیت اور ذمہ داروں کے تعین کرنے میں منقسم رائے سامنے آرہی تھی ۔ چنانچہ جرنیلوں، ججوں اور سیاستدانوں سمیت سبھی کو ملک کی زبوں حالی کےلئے ذمہ دار قرار دیاجارہا تھا ۔جبکہ ہر بار نئے تھپڑ کے لئے اپنا منہ پیش کرنے والے پاکستانیوں کا کوئی نام نہیں لے رہا تھا۔اور آجا کر عوام کو بیچاری ہی قرار دیا جا رہا تھا۔
بحث کے دوران ایک دوست نے مادر وطن کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کی تمام ناکامیوں ،خامیوںاور خرابیوں کا ملبہ مسلح فوج کے ادارے کو ایک طرف رکھتے ہوئے جرنیلوں کے سر پر ڈال دیا ۔ان کی رائے یہ تھی کہ آج بھی ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے پس پردہ چند جرنیل ہی ہیں ۔اور ان کا خود کو غیر جانبدار قرار دینا بھی محظ لفاظی ہی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے حالات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک 2016کی ترکی میں عوام کی جانب سے ناکام بنائی گئی فوجی بغاوت کی طرح یہاں بھی لوگ ٹینکوں کے آگے نہیں لیٹ جاتےاور بعد ازاں ترکی ہی کی طرح یہاں بھی فوج کی تطہیر نہیں کر دی جاتی۔
دوسرے صاحب کا خیال تھا کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے جب بھی قومی معاملات میں ان پر فیصلے کی ذمہ داری آئی تو انہوں نے آج تک اپنے منصب کےتقاضے پورے کرتے ہوئےانصاف کا بول بالا نہیں کیا اور کسی نہ کسی کے ایما پر انصاف کرتے ہوئے ڈنڈی ماری ہے ۔ جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔چنانچہ اعلیٰ عدلیہ کے سیاسی فیصلوں نے ہمیشہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کو شہ دی ہے کہ انکے کئے ہوئے سارے غیر آئینی و غیر قانونی کاموں کوعدالتوں سے تحفظ ملتا رہے گا ۔ پارلیمان کوبالادست ادارہ قرار دینے کے باوجود اسکے اختیار اور وقار کو حسب ضرورت بروئے کار لایا جاتا رہے گا۔ اور یوں ایک ہی عمل کے ضمن میں دو بالکل متضاد فیصلے کئے جاتے رہیں گے اور جب کچھ نہ بن پڑے گا تو ـ”نظریہ ضرورت”تو ہے ہی۔سو جب تک عدالتیں ٹھیک نہیں ہونگی کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔
تیسرے دوست کی رائے تھی کہ جرنیل ہوں یا جج انہیں حکومتی و سیاسی امور میں مداخلت کی دعوت دینے والے سیاستدان ہی اصل فساد کی جڑ ہیں۔اگر پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو فوری طور پر ملک میں سیاست اور سیاستدانوں پر کم از کم دس سال کے لئے پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ جو ہمارے گلی محلوں بلکہ اب تو گھروں کے اندر بھی ایک انتشار کی فضا پیدا ہو چکی ہے اس کے تمام تر ذمہ دار یہی سیاستدان ہیں۔ یہ کچھ نہیں کرتے مگر چند ایک کو چھوڑ کر ان کے اثاثے دنوں اور مہینوں میں زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج پاکستان میں سیاست سے زیادہ منافع بخش کو ئی کاروبار نہیں ہے۔چند کروڑلگا کر الیکشن جیتو اور پھر اپنی سرمایہ کاری کو کئی گنا منافع کے ساتھ واپس وصول کر لو۔جھوٹے سچے نعروں سے لوگوں کو الو بناؤ اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہو۔ اور اگر خدانخواستہ ضرورت پڑے تو ججو ں اور جرنیلوں کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔رہ گئیںجمہوری و پارلیمانی روایات اور پارٹی سیاست تو یہ سب مقصد براری کا ذریعہ ہونے سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔باقی ان سے عوام کو بے وقوف بنانے کا کام تو لیا جاتا رہے گا۔
چوتھے دوست کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اوراسکے رسولﷺ سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو انگریزی جمہوریت کے حوالے کر دیا گیا اور دینداروںکی جگہ چوروں اور ٹھگوں کو راہنمائی کے لئے چن لیا گیا۔ اپنے گھروں،گلیوں، محلوں، بازاروں، گاؤں اور شہروں میں جس طرف دیکھو گے تمہیں اللہ توالیٰ اور رسولﷺ کی نافرمانی ہوتی نظر آئے گی مگر کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا۔سودی نظام رائج ہے اور ہم اس پر اسرار بھی کر رہے ہیں۔ مساجد سے دن میں پانچ بار اللہ تعالیٰ کا اپنے حضور پیش ہونے کا حکم موصول ہوتا ہے ۔مگر افسوس کہ انتہائی کم لوگ نمازکے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ یہی نہیں حقوق العباد میں اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی نافرمانیاںفوری سزا کو دعوت دیتی ہیںاور یہی ہمارے ان حالات کی بنیادی وجہ ہیں۔دوستو مولوی صاحب والا واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ نمازیوں نے ملک کے خراب حالات کی درستگی کی دعا کے لئے کہا تو مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ یہ پانچ ہزار کانوٹ ملا ہے ۔ جن صاحب کا ہو وہ نشانی بتا کر لے لیں تو اس نوٹ کے پانچ سات دعویدار کھڑےہو گئے۔ جس پر مولوی صاحب نے کہا کہیہ نوٹ میرا ہے جو میری بیوی نے سودا سلف لانے کے لئے مجھے دیا ہے۔ آپ اپنی حالت کا اندازہ کر لیںجب تک ہم خود کو ٹھیک نہیں کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ بھی ہمارے حامی و مددگار نہیں بنیں گے۔
اس ساری بحث میں بالآخر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک دوست نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان اب ٹھیک ہونے کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی رہنے کے قابل ہے۔ ہم نے تو جیسے تیسے اپنی زندگیاں گزار ہی لی ہیں ۔مگر اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل دینے کے لئے ہمیں نئے وطن کی تلاش کرنی چاہیے۔دوسرے دوست کی رائے تھی کہ اپنے ایک ایک بچے کو فوج، عدلیہ اور سیاست کےتینوں شعبوں میں سے ایک میںداخل کریں اوروہاں اسکی ترقی کے لئے درکار تمام ہتھکنڈے استعمال کریں۔ اگر وہ جرنیل ، ہائیکورٹ کا جج یا رکن اسمبلی بن گیا تو آپ کی آنے والی کئی سات پشتیں سنور جائیں گی۔
مگر یہ بحث کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئی اورہم سب نشتن، گفتن،برخاستن کے مصداق اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کوچل دئیے ۔ جبکہ میرے ذہن میں سارا رستہ محترم انور مسعود کی ایک مقبول عام نظم کا مصرہ گردش کرتا رہا کہ: سوچیں پئے آں ہن کی کرئیے