.تحریر:سلمان احمد لالی
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر آنے والے فیصلے نے یوں تو بحرانی اور ٹکراو والی صورتحال کو ختم کرنےمیں خاصی مدد کی۔ لیکن گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے پارلیمانی معاملات کو بار بار عدالتوں میں لے جانے سے مقننہ کی حیثیت اور مرتبے کے حوالے سے جو تشویش سنجیدہ طبقات میں پائی جارہی ہے وہ بڑی حد تک جائز ہے۔ پارلیمان ریاست کا سب سے افضل اور مکرم ادارہ ہے، یہ ادارہ مملکت کی خودمختاری کی صحیح معنوں میں ایک علامت ہے۔ ریاست میں جو کچھ ہے اور جس کی جو حیثیت ہے وہ اس مقننہ کی عطا کردہ ہے۔ سب ادارے اس ادارے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت بھی اسی ادارے کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ قانون بھی یہاں بنتے ہیں ، عدالتوں کا وجود بھی اسی مقننہ کے بنائے ہوئے آئین کا مرہون منت ہے۔
لیکن کیا بات ہے کہ آئے روز ہر بات پر اہل سیاست عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اجلاس کو طلب کرنے کیلئے، انتخاب کیلئے، حتیٰ کہ اسپیکر کی رولنگ تک پر تو سومو ٹو ایکشن ہوگیا۔ اس سے بڑی کیا تذلیل ہوگی۔
مجھے یہ سطور لکھنے کی ضرورت پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان جناب سینیٹر رضا ربانی کے اس بیان کوپڑھنے کے بعد ہوئی کہ جس میں انہو ںنے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں نے اپنی آزادی اور خودمختاری کو مکمل طور پر سرنڈر کردیا ہے۔ یہ بات رضا ربانی جیسا دانشور سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ کوئی کباڑیے سے سیاستدان بننے والا یا علمی طور پر غیر خاندانی شخص تو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں رکھتا۔ انکے کیا لاگے کہ مقننہ کا تقدس کیا ہے، وہ تو اپنے ذاتی فائدے کیلئے اور اقتدار کی کرسی پر متمکن ہونے کیلئے ہر غیر جمہوری طاقت کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ جب ایوان والوں کے باہر والوں سے ناجائز تعلقات ہوں تو ایوان کی عزت بھلا کہاں محفوظ ہوگی۔
اب رضا ربانی جیسے لوگ ہیں ہی کتنے؟اللہ انکی عمر دراز کرے اور وہ اس نسل کو آئینہ دکھاتے رہیں۔ رضا ربانی نےایسے ہی خیالات کو اظہا ر اس وقت بھی کیا تھا جب سپریم کورٹ کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وو ٹ کےد وران مداخلت کرنا پڑی۔ رضا ربا نی نے اپنے وقار ، آزادی اور خود مختاری کو غیروں کے قدموں تلے روندنے کا سبب اہل سیاست شرفا ، اہل زر، اور دیگر حکمران اشرافیہ کو ہی قرار دیاجو مسجد جیسے مقدس ادارے پارلیمنٹ کو بے کار کر چکے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ پارلیمنٹ کی بے توقیری ہو تو مملکت کی عزت بچ جائے یہ ہو نہیں سکتا، یہ اس نظام کی ایک روایت ہےکہ جمہوریت کو سوتن برداشت نہیں ۔ یہ بڑی غیرت مند ہوتی ہے۔ جمہور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے ہی عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے چند افراد خس و خشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ چاہے انکا تعلق کسی بھی جماعت سےہو۔ چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے وہ شریفان صنعت و حرفت ہی کیوں نہ ہوں جو سیاست کو ہابی سمجھ کر آئے اور پھر پورے ملک کی تقدیر سے پولو کھیلنے کی ہابی اپنا لی، یا اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ اور خاص زر دار ہوں، جنہیں کسی بڑے لیڈر کے گھرمیں سیاسی نقب لگانے کیلئے بھیجا گیا۔ یہ سب بہہ جائیں گے۔
کسی کو کوئی غلط فہمی نہ رہے، پارلیمان کی توہین ، ریاست کے سب اہم ، لازمی اور بنیادی جزو یعنی عوام کی توہین ہے۔ یہ اسمبلیاں عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ہیں۔ جو انکی منشاکے خلاف کچھ بھی کرے وہ ہی غدار ہے۔ وہ ہی وطن فروش ہے۔ اب اس اصول کو اپنے پر لاگو کر کے دیکھیں تو ہمیں شاید گنتی کے ہی چند لوگ بھی نہ ملیں جو صحیح معنوں میں محب وطن ہوں۔ لیکن اس کے ذمہ دار گھر والے ہیں جو باہر والوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔