عرب ممالک اور اسرائیل کا نیٹو جیسا اتحاد ممکن ہے؟

 

 

 

 

سلمان احمد لالی
سابق وزیراعظم شمعون پریز نے 1993میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا نیو مڈل ایسٹ ، اپنی اس کتاب میں وہ ایسے مشرق وسطیٰ کا تصور دیتے ہیں جو پر امن ہو، تمام ممالک کے درمیان گہرے معاشی تعلقات ہوں ، جہاں شہریوں کی معاشی اور سماجی حالت یورپ کے باسیوں کے برابر ہو، انہوں نے اس کتاب میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی معاشی بدحالی کا نتیجہ ہے، وہ ایسے مثال دیتے ہیں کہ کتاب لکھتے وقت بیشتر عرب ممالک کی فی کس آمدنی 1200ڈالر سالانہ تھی،جو کہ یورپ کے شہریوں کی آمدن کا دسواں حصہ بنتا ہے، اسی طرح مصریوں کی اوسطا سالانہ آمدن 640ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلی شہریوں کی آمدن دس ہزار ڈالر سالانہ کے قریب ہے۔
اسی طرح اسرائیل سمیت دیگر عرب ممالک اپنے دفاع پر بہت بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں جو معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔ لیکن تمام ممالک میں اتحادسے عرب باشندوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اس وقت یہ تصور ایک دیوانے کاخواب لگتا تھا لیکن آج حالات ایسے ہیں خلیجی ممالک اور اسرائیل میں روابط استوار ہوچکے ہیں ، مصر اور اردن کے علاوہ مراکش ، بحرین اور متحدہ امارات کےساتھ سفارتی تعلقات موجود ہیں جبکہ سعودی عرب کے ساتھ خفیہ اسرائیلی روابط اب راز نہیں رہے۔
ایسے میں اسرائیل مشرق وسطیٰ اپنے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ نیٹو طرز کا ایک ایسا اسٹریٹجک اتحاد بنانے کی کوشش کررہا جو ایرانی خطرات سے نمٹ سکے۔ ایران کے ساتھ دشمنی اسرائیل اور خلیجی ممالک کو جوڑنے میں کلیدی کردار کر رہی ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے بحرین کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔اسی طرح گزشتہ نومبر میں اسرائیلی وزیر دفاع نے مراکش کے ساتھ بھی دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا۔ ایک ہفتہ قبل سینئر سیکیورٹی آفیشلزپر مشتمل ایک وفد نے ابو ظہبی کا بھی دورہ کیا جس میں ایران نواز حوثی باغیوں کے ممکنہ حملوں سے بچاوٗ کیلئے امارات کو پیشگی وارننگ سسٹم کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا۔یہ وہ تمام باتیں جو پبلک نالج میں ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے روابط ابھی تک خفیہ رکھے گئے ہیں لیکن تل ابیب میں بیٹھے پالیسی ساز وں کو امید ہے کہ جب محمد بن سلمان سعودی عرب کے باضابطہ طور پر باد شاہ بنیں گے تو سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم کرلے گا۔
یہ تمام باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ امریکہ کے اس خطے سے گریجوئل ودڈرال نے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جہاں تک ایران کی بات ہے تو وہ ایک طرف لبنان میں اسرائیل مخالف حزب اللہ کی مدد کرتا اور دوسری جانب شام میں اسرائیلی سرحدوں کے قریب اپنی موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اور ابھی حال ہی میں ایران نے ایک ایسا طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل بنایا ہے جو خطے میں امریکی اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس میزائل کا نام غزوہ خیبر کے نام پر خیبر بسٹر رکھا گیا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کوجلد ایک اتحاد کی شکل دے ۔
عرب اسرائیل دفاعی تعاون کی ایک اور مثال بحیرہ احمر میں امریکی قیادت میں ہونے والی ایک بڑی بحری مشق ہے جس میں اسرائیلی بحری فوج کے علاوہ بعض ایسے مسلمان ممالک بھی شامل ہیں جو اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتے۔
اگر اسرائیل اور عرب ممالک کا دفاعی اتحاد تشکیل پاتا ہے اسے ایران کے سرحد کے قریب ان اڈوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی جو تہران کی راتوں کی نیند اڑانے کیلئے کافی ہے۔اس سے اسرائیل کو ایران پر فضائی حملے کی صورت میں ری فیولنگ اور لینڈنگ کی سہولت بھی میسر ہوگی۔
اور یہ اتحاد صر ف علامتی یا نظریاتی نوعیت کا نہیں بلکہ دور رس تزویراتی نتائج کا حامل ہوگا۔ اگر اسرائیل ان ممالک میں جدید میزائل شکن ، اینٹی ڈرون واننگ اینڈ انٹر سیپشن سسٹم نصب کرتا ہے تو مستقبل میں ایران کی جانب سے کسی بھی میزائل لانچ کا اسے بر وقت پتہ چل جائے گااور اسے انٹر سیپٹ کیا جاسکےگا۔
اسرائیل اور خلیجی ممالک کو خدشہ ہےکہ اگر ویانا مذاکرات کے نتیجہ میں ایران پر سے پابندیاں اٹھالی جاتی ہیں تو اسے وہ وسائل میسر ہوں گے جس کے نتیجہ میں وہ پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی پراکسیز کے ذریعے سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ اتحاد اسرائیل کو ایران پر سٹریٹجک برتری دے گا اور اس بات کا ایرانیوں کو مکمل طور پر ادراک ہے۔
لیکن یہ سارا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ، اگر اسرائیل خلیجی ممالک کو آئرن ڈوم ، ڈیوڈز سلنگ اینڈ ایرو جیسے ائیر ڈیفنس سسٹمز فراہم کرتا ہے تو اس سے دو مشکلات پیش آئیں گی۔
ایک تو پہلے سے نصب امریکی پیٹریاٹ بیٹریوں کو ہٹانا پڑے گا جس سے امریکہ کی ناراضی کا خطرہ بہرحال موجود ہے جو ان ممالک کو ابھی تک سب سے بڑا ہتھیاروں کا برآمد کنندہ ہے ، اس مارکیٹ میں اسرائیلی انٹری کافی نازک معاملہ ہے اور اسکی امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس مخالفت کرے گا۔
دوسرا اسرائیل سمجھتا ہے کہ ان ہتھیاروں اور دفاعی مصنوعات سے اسے جو عرب ممالک پر ایک ٹیکنالوجیکل ایج حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گا۔اسرائیل کیلئے آئرن ڈوم کے کچھ حصے فروخت کرنا تو ممکن ہے جیسے ریڈار اور گرائونڈ کنٹرول سسٹم ،جو وہ پہلے سنگا پور اور آذربائیجان کو فراہم کر چکا ہے لیکن انٹر سیپٹنگ میزائلزکی فراہمی کے حوالے سے تذبذب پایا جاتا ہےجس کے بغیر آئرن ڈوم مکمل نہیں ہو سکتا ۔
اس لیے اسرائیل میں یہ سوچا جارہا ہے کہ خلیجی ممالک کی شکل میں وہ اپنے نئے اسٹریٹجک پارٹنرز کو اسلحہ فراہم کرتےہوئے وہ ٹیکنالوجیکل ایج کیسے برقرار رکھے، آپ کو یاد ہو گا کہ ابراہم ایکارڈسائن ہونےکے بعد جب امریکہ کی جانب سے امارات کوففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر ایف تھرٹی فائیو کی فراہمی کی بات ہوئی تو اسرائیل نے اسکی مخالفت کی تاکہ اسکی خطے میںاسکی برتری برقرار رہے۔
اسی طرح کیا عرب ممالک ایسے کسی اتحاد کے سیاسی اورتزویراتی تنائج بھکتے کو تیار ہیں؟یہ بھی ایک بہت بڑسوالیہ نشان ہے۔ میں یہ ہی سوال اپنے ناظرین اور سامعین سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپکی آراکے مطابق کیا یہ ملٹری اور سٹریٹجک اتحاد تشکیل پاسکے گا یا نہیں، اس پر ہمیں اپنے خیالات سے کامنٹس سیکشن میں آگاہ فرمائیں۔

 

#irondome#isreal#missilesystem#PakTurkNews#untedarabemiratesiran