تحریر:سلمان احمد لالی۔
اس بار جمعہ کا دن پاکستان تحریک انصاف پر بھاری پڑا۔ دوپہر کے وقت ڈرامائی طور پر چوہدری شجاعت نے اعلان کیا کہ وہ پرویز الہیٰ کی حمایت نہیں کریں گے۔ جس کے نتیجے میں ق لیگ کے ووٹوں کو ڈپٹی اسپیکر نے مسترد قرار دینے کی رولنگ دی اور حمزہ شہباز ایک بار پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
لیکن ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نے قانونی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ووٹوں کومسترد کرنے کا فیصلہ قانونی طور پر درست تھا کہ نہیں ۔ دوسراکیا ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 63اے پر سپریم کورٹ کی رولنگ پر تشریح کی روشنی میں جوفیصلہ کیا وہ کس حدتک درست تھا۔
سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق منحرف ارکان کے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر جماعت کی ہدایت اور رکن کے انفرادی عمل میں فرق اختلاف ہو تنازع ہو تو پارٹی کے فیصلے اور موقف کو اہمیت دی جائے گی۔
عدالت نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا کوئی بھی رکن اگر اپنی پارلیمانی جماعت کی ہدایت کے خلاف آرٹیکل تریسٹھ کی شق ایک کے پیرا بی کے تحت ووٹ ڈالتا ہے تو رکن کاووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسے مسترد یا نظر انداز کیا جانا چاہیے۔اس بات سے قطع نظر کہ آیا پارٹی کا سربراہ رکن کے خلاف کوئی کاروائی کرتا ہے یا نہیں۔
اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی پارٹی سربراہ کی طرف سے کسی رکن کے خلاف بھیجے گئے ڈیفیکشن کے آرڈر کی تصدیق کرتا ہے تووہ ایوان کا رکن نہیں رہےگا۔
آئین کے آرٹیکل تریسٹھ کے ون کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے اگر وہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کی خلاف ووٹ دیتا ہے یا ووٹ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیتا۔ اس شق کا اطلاق قائد ایوان کے انتخاب، اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ، منی بل یعنی بجٹ یا آئین کے ترمیمی بل پر ہوتا ہے۔
بیشتر ماہرین قانون کے مطابق اسپیکر نے عدالتی فیصلے کودرست طور پر نہیں سمجھا ۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کا متن واضح ہے کہ ووٹ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے مطابق ڈالا جائے گا اسلیے چوہدری شجاعت کے خط کی کوئی اہمیت نہیں۔ایسے میں ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے ق لیگ کے ووٹوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ غلط ہے۔کیوںکہ آئین کے مطابق شجاعت حسین کے خط اور بطور پارٹی صدر انکی حیثیت کی قانونی حیثیت نہیں۔ اس حوالے سے قانون واضح ہے ۔
بیشتر ماہرین قانون کے مطابق یہ رولنگ اسی طرح سے غیر قانونی ہے جس طرح قاسم سوری کی رولنگ خلاف ضابطہ و قانون تھی۔ متعلقہ قانون واضح طور پر ہدایات جاری کرنے کا فورم پارلیمانی پارٹی کو قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سربراہ کو یہ ضرور حق دیتا ہے کہ وہ رکن کے انحراف کی صورت میں اسے ڈی سیٹ کرنے کا حکم دے سکے۔
لیکن دوسری جانب یہ بھی موقف دیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں بار بار پارلیمانی جماعت کے بجائے سیاسی جماعت اور پارٹی سربراہ کا ذکر ضرور ابہام پیدا کرتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت جمہوری عمل کی بنیا د ہے ۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ عدالتی فیصلہ تریسٹھ اے سے متصاد م ہے حالانکہ شق میں موجود پارلیمانی پارٹی کی جانب سے ہدایت جاری کرنے کا اختیار کو ہی عدالتی تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی تشریح میں اجتماعی فیصلے کو انفرادیت پر ترجیح دی گئی ۔ تاکہ کسی فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ نہ قائم رہ سکے۔
لیکن سپریم کورٹ کے ہی ایسے فیصلے بھی موجود ہیں کہ جن کے تحت پارٹی ہیڈ ہی پارلیمانی پارٹی کا ہیڈ بھی ہوتا ہے۔یہ مشاہدہ اس کیس کے فیصلے میں آیا جس میں نواز شریف کو ن لیگ کی صدارت کیلئے نا اہل قرار دیا گیا ۔
فیصلہ آتے ہی مختلف ٹی وی چینلوں پر ماہرین قانون کو اپنی رائے دینے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ انکی رائے سامنے رکھنے سے پہلے سپریم کور ٹ کی تشریح کے حوالے سے کچھ بنیادی جزیات قارئین کے سامنے رکھ دوں۔
آرٹیکل تریسٹھ کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایت سے انحراف کرنے والا کوئی بھی رکن ووٹ تو دے سکتا ہے لیکن پارٹی ہیڈ اسے بعد میں بطور سزا ڈی سیٹ کروا سکتا ہےاور اسے نا اہل بھی قرار دلوایا جاسکتا ہے۔ جبکہ عدالت عظمیٰ نے اس کی تشریح کے دوران مزید اضافہ یہ کیا کہ ایسے رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
یہ فرق ہے آرٹیکل تریسٹھ میں اور عدالتی تشریح میں ۔ اب آتے ہیں ان ماہرین قانون کی جانب جنکی رائے ہمیں معلوم ہوئی۔ بیرسٹر پنسوتا نے اپنے ٹویٹ میں اس رولنگ کو غلط قرار دیا اور کہا کہ پارٹی ہیڈ کے بجائے پارلیمانی پارٹی کو ہدایت جاری کرنے کا حق ہے۔
اعتزاز احسن نے اے آروائے سے بات کرتے ہوئے کہا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ انکے مطابق تریسٹھ اے کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں پارلیمانی پارٹی کو مقدم رکھا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں پارٹی سربراہ کی اتھارٹی کو اس معاملے میں واضح کیا گیا ہے۔پارٹی ہیڈ جس قدر بھی ذہین اورجہاندیدہ ہو لیکن پارلیمانی پارٹی کے ارکان ہی ایوان کی کاروائی کا حصہ بنتے ہیں۔ مباحث میں حصہ لیتے ہیں اور تمام معاملات پر انکی نظر ہوتی ہے۔ انہیں کو ووٹ ملا ہوتا ہے اس لیے وہ پارٹی ہیڈ سے بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میںہوتے ہیں۔
انکے مطابق یہ فیصلہ کہ کس کو ووٹ دینا ہے پارلیمانی پارٹی کا ہے ۔ پارٹی ہیڈ کا اختیار بعد میں اس رکن کو سزا دینے کی حد تک ہے اور وہ بھی پارلیمانی پارٹی کی سفارش پر۔
آے آروائے سے ہی بات کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ آئین میں لفظ پارلیمانی پارٹی ہے نہ کہ پارٹی سربراہ۔
دوسری جانب بعض ن لیگ کے حامی افراد کاکہنا ہے کہ پارٹی سربراہ سپریم ہے اور اسکی اتھارٹی فائنل ہے۔ یعنی پارٹی سربراہ ڈکٹیٹ کر سکتا ہے پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کو بھی۔پارلیمانی پارٹی کو اپنا فیصلہ پارٹی سربراہ کے حکم کے مطابق ہی کرنا ہوتا ہے۔
معروف قانون دان احسن بھون نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی تشریح کو غلط سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے انکا کیس عدالت میں ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے بینچ کے فیصلے میں اختلافی نوٹ کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کر رکھی ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ارکان کے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر انکے ووٹ کو مسترد قرار دینا آئین میں اضافہ ہے۔ ووٹ کا حق ہر رکن کو ہے تاہم اسکے بعد اس پر تریسٹھ اے کے تحت پارٹی سربراہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ اسے انحراف کی صورت میں ڈی سیٹ کروا سکے۔