اسلام آباد(پاک ترک نیوز) وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نومبر میں آئین کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سیاست کے وقت میں سیاست ہوگی، جب انتخابات ہوں گے اور میدان سجے گا تو سیاست بھی ہوگی لیکن میثاق معیشت کے لیے ہم آج بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر بات ہو سکتی ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقیدکرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ اقتدار جانے کا نشہ ٹوٹ رہا ہے جو اس کو ستا رہا ہے اور اس حالات میں وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو نہیں کرنی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو سیلاب متاثرین کے لیے امداد نہ ملے۔ عمران خان اقتدار کے لیے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ 4سالہ دور حکومت میں عمران خان مہنگائی اور کرپشن چھوڑ کر گئے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، آرمی چیف کا تقرر آئینی فریضہ ہے جو وزیراعظم نومبر میں انجام دیں گے۔ نواز شریف نے بھی 4 مرتبہ یہ آئینی فریضہ انجام دیا ہے۔نواز شریف نے آرمی چیف کی تعیناتی کو کبھی بحث کا موضوع نہیں بنایا۔
نیوز کانفرنس میں وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ دورہ ازبکستان میں مختلف سربراہان مملکت کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقاتیں ہوئیں، سب سے اہم ملاقات چینی صدر سے ہوئی۔ روس اور ترکیہ کے سربراہوں سے بھی مفید ملاقاتیں ہوئیں۔ سیلاب کی آفت میں تمام سربراہان مملکت نے وزیراعظم کو ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیراعظم نومبر کے پہلے ہفتے میں چین کا دورہ بھی کریں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جب اقتدار میں آئے تو حالات بہت ابتر تھے۔ جلد حالات بہتر ہوں گے، جس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔آج قوم کو پہلے سے زیادہ اتحاد اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔قوم کو متحد ہو کر سیلاب کی آفت سے نکلنا ہوگا۔ روس نے پاکستان کو گندم اور گیس فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کو دورے کی دعوت دی ہے، جس کی تاریخ فائنل ہو رہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قومی سلامتی ہماری اقتصادی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ عمران خان پاکستان کی قومی اور اقتصادی سلامتی پر بار بار حملے کر رہا رہے۔ اقتدار جانے کی وجہ سے ان کا ذہنی توازن خراب ہو چکا ہے۔ایک سوال پر وزیر دفاع نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے قانون کے اہم ذرائع ہوتے ہیں، ماضی کے فیصلوں کو سامنے رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اگر ماضی کے فیصلے قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہیں تو اس کا سدباب ہونا چاہیے۔