تحریر :ڈاکٹر علی عواض عسیری۔ سابق سعودی سفیر
پاکستان میرا دوسر ا گھر ہے ۔ میں نے اسلام آباد میں 2001 سے 2009 تک اپنے سفارتی کیریئر کے عروج کا دور بطور سفیر گزارا ہے ۔ کچھ سال میں نے ڈپلومیٹک کور کے ڈین کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔
اپنے سفارتی دور کے دوران میں تین بار وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہوں، اس دوران انہوں نے لاہور اور پنجاب کی شکل بدل کر رکھ دی۔ ان کے بڑے بھائی نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں، انہوں نے پاکستان کے پارلیمانی اداروں کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا اور پاکستان کو مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بنانے کی راہ ہموار کی۔
اب شہبازشریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی کرشماتی قیادت میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی، سکیورٹی، معاشی اور ثقافتی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے ۔
پاکستان آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ خارجی طور پر، افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد مغربی سرحد پر غیریقینی صورتحال کا سامنا ہےجبکہ مشرقی محاذ پر انڈیا میں ہندو انتہاپسندی کی لہر کشمیری مسلمانوں کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔ داخلی طور پر، انتہائی خراب معاشی حالات کی وجہ سے نہ صرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا بلکہ ملک کی خارجی طور پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف میں قابلیت، حوصلے اور پاکستان کو بامعنی طور پر آگے بڑھانے کا جذبہ موجود ہے۔ مجھے اس امر پر بھی شک نہیں ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے سعودی تعاون پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
پاک سعودیہ تعلقات کی قابل فخر تاریخ
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی معیشت، استحکام اور عوام کی فلاح کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک عظیم روایت ہے جو ملک کی آزادی سے پہلے بھی قائم تھی۔ سنہ 1940 جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔
سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنے والا اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں پہلا ملک تھا۔ سنہ 1950 میں سعودی مملکت نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا۔ سنہ 1954 میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے سابقہ دارالحکومت کراچی میں ایک ہاؤسنگ سکیم کا سنگ بنیاد رکھا، جسے سعود آباد کا نام دیا گیا۔ 1960 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے 1965 کی پاکستان بھارت جنگ اور 1972 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں مل کر کام کیا۔ سنہ 1969 میں اس وقت کے سعودی وزیردفاع اور ہوا بازی شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ کیا اور دوطرفہ دفاعی تعاون کو یقینی بنایا۔
سعودی پاکستان تعلقات کی تاریخ میں ایک شاندار باب کا آغاز 1970 کی دہائی میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ہوتا ہے۔جس کا اہم باب 1973 میں اسلامی ممالک کی تنظیم تعاون اسلامی کے لاہور اسلامک سمٹ کا انعقاد تھا، جس کی علامتی قدر آج بھی دونوں اقوام کی یادداشتوں میں زندہ ہے۔
پاکستانی عوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز سے پیار کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی میں شاہراہ فیصل ان کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب نے اپنے دروازے پاکستانی افرادی قوت کے لیے کھولے اور بھٹو حکومت کو بھارت کے جوہری مقاصد کے پیش نظر مالی تعاون فراہم کیا۔
سعودی عرب اور پاکستان سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ مخالف اتحاد سینٹو اور سیٹو کے اہم رکن تھے۔ چنانچہ 1980 کی دہائی میں انہوں نے افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف عالمی جنگ میں مدد فراہم کی، جس کے نتیجے میں دنیا کو کمیونزم سے چھٹکارا ملا۔ سنہ1972 میں انہوں نے دوطریقہ سکیورٹی تعاون کا معاہدہ کیا، جس کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کی عسکری تربیت اور دفاعی پیداوار کی صلاحیت بڑھانے میں مدد کی۔ سنہ 1989 میں جب عراق کے کویت پر حملے سے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ پیدا ہوا، پاکستان نے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ بنتے ہوئے سعودی سرحدی علاقوں کے دفاع کی پہلی صف کا کردار ادا کرتے ہوئے فوج کی ڈویژن بھیجی۔
سنہ 1990 کی دہائی میں افغان مجاہدین کے دھڑوں کے درمیان آپس میں لڑائی شروع ہوئی، دونوں اقوام نے عالمی امن کی کوششیں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سنہ 1997 میں پاکستان نے آزادی کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر اسلامی تعاون تنظیم کا غیرمعمولی اجلاس منعقد کیا۔ اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اس تقریب میں شرکت کی۔ سنہ 1998 میں جوہری تجربات کے بعد پاکستان کو سخت مغربی پابندیاں کا سامنا رہا، اس موقع پر سعودی عرب نے پاکستان کو تیل کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک سال کے لیے تاخیر سے ادائیگی پر تیل فراہم کیا، جس میں سے بعد میں بیشتر امداد کی صورت میں بدل دیا گیا۔
پاکستان میں ایک ہنگامہ خیز دور میں بطور سعودی سفیر تعینات رہنے کے دوران مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دونوں اقوام نے نائن الیون کے بعد کس گہرائی سے دہشت گردی کا سامنا کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے اس خطرے کا کیسے مقابلہ کیا۔ اپنی قیادت کی ہدایت اور رہنمائی میں، میں نے پاکستان کے استحکام اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سول اور ملٹری قیادت کے ساتھ قریبی تعلق قائم رکھا۔جب آزاد جموں و کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو سعودی عرب پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو ہنگامی امداد پہنچانے کے لیے ایئر کوریڈور قائم کیا۔ پیشہ ور سعودی ڈاکٹروں اور تمام سہولیات سے آراستہ دو ہسپتال قائم کیے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے ذریعے ہم نے اس قدرتی آفت پر مل کر قابو پایا، اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر اسلامی تصورِ امن کی ترجمانی بھی کی۔
پاک سعودیہ تعلقات میں تلخی لانے کی کوششیں
ایک دہائی بعد میں جنوری 2019 میں لبنان میں سفارتی فرائض ادا کرنے اور بطور سفارت کار ریٹائرڈ ہونے کے بعد اسلام آباد واپس آیا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے عفریت کو شکست دی۔ یہاں کے دانشوروں کے ساتھ مکالمے سے مجھے پتا چلا کہ پاکستان کے عوام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت جاری ’ماڈرنائزیشن‘ کے وژن کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ فروری 2019 میں سعودی ولی عہد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاشی تعلقات میں نئی پیش رفت کا اعلان کرنے اسلام آباد پہنچے۔
اس سے قبل نومبر 2018 میں ولی عہد نے پاکستان کے لیے تین برس کے لیے چھ ارب 20 کروڑ ڈالرز کے ایمرجنسی ریلیف پیکج کی منظوری دی تھی جس میں سے تین ارب ڈالرز قرض اور تین ارب 20 کروڑ تیل کی ادائیگیوں کے لیے مختص تھے۔ اس کا مقصد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا اور ادائیگیوں کے نظام میں توازن لانا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے بھی سعودی عرب کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ایسے ہی ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ یہ پیش رفت آئی ایم ایف کے جانب سے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے چند ماہ قبل ہوئی تھی۔
سعودی عرب کی حکومت نے پاکستان کے عوام کے اپنے سول اور فوجی قیادت کے انتخاب کے حق کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ احترام اور وقار کے ساتھ معاملات طےکیے ہیں۔ پاکستان کی سابق حکومت کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پہلا ملک تھا جو پاکستان کو سہارا دینے اور وہاں مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے آگے بڑھا۔
سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان سے جو سب سے بڑی پیش رفت سامنے آئی وہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدے تھے۔ ان میں پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹروکیمیکل کمپلیس کے قیام کے لیے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی۔
اس وقت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ’میں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہوں۔‘اس کے ایک برس بعد ولی عہد نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو اپنا خصوصی طیارہ بھی فراہم کیا جس کے ذریعے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے نیویارک گئے۔
ایک اور اہم پہلو پاکستان میں دونوں ممالک کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے مشترکہ کاوشیں تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے سعودی عرب کے مسلم دنیا سے متعلق منفرد موقف کی مخالف عالمی قوتوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے روابط کی جیو پالیٹکس سے جیو اکنامک تعلقات کی جانب منتقلی کے عمل کو ناکام بنانے کی سازشیں شروع کر دیں۔
اس سب کا پس منظر واضح تھا۔ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور سعودی عرب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شراکت سے اپنے معاشی روابط کو کثیرالجہت بنانے کی راہ پر گامزن تھا۔
چین پاکستان راہداری(سی پیک) چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ یہ راہداری گوادر تک بنے گی جہاں سعودی آرامکو آئل ریفانری کی مجوزہ سائٹ ہے۔
یہ سازش اس وقت زیادہ کھل کر سامنے آئی جب ایک حریف مسلم ممالک کے بلاک نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے والی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوششوں میں تسلسل لایا۔ لیکن خوش قسمتی سے پاکستان اور سعودی عرب کے مضبوط تعلقات کی وجہ یہ سازش ناکامی سے دوچار ہو گئی۔
گذشتہ دو برسوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دوبارہ ہموار ہو گئے اور دسمبر 2021 میں پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالرز کا امدادی پیکیج موصول ہوا۔
پاک سعودیہ تعلقات ، مستقبل کی راہ کیا ہو گی؟
یہ واضح ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی فوری ترجیح پاکستان کے بے پناہ معاشی مسائل کو حل کرنا ہو گی اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے وہ سعودی عرب سے مزید امداد لینا چاہیں گے۔مجھے یقین ہے کہ سعودی قیادت پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔ اس طرح آئندہ انتخابات سے قبل اس اتحادی حکومت کو مستحکم سیاسی ماحول قائم کرنے میں مدد ملے گی جو کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے لازمی عنصر ہے۔
سعودی عرب کی معیشت کو ہمہ جہت بنانے کے لیے جاری اقدامات سے پاکستان کے ہنرمند افراد کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت اور معیشت سے متعلق دیگر شعبوں میں بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب میں اس وقت لگ بھگ 20 لاکھ پاکستانی کارکن موجود ہیں اور یہ پاکستان کے زرمبادلہ کا واحد سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
لیکن ان کارکنوں میں سے اکثر کا شمار غیرہنر مند افرادی قوت میں ہوتا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو ایسے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے چاہئیں جو کارکنوں کو تربیت دیں تاکہ وہ انتہائی تیز رفتار سعودی لیبر مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو سکیں۔
سعودی وژن 2030 کا مقصد مملکت کو ایک عالمی معاشی مرکز بنانا ہے۔ اس کے تحت 500 ارب ڈالرز کے نیوم سٹی سمیت کئی بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس ہنرمند نوجوان کی کافی تعداد موجود ہے جو سعودی عرب کی پوسٹ انڈسٹریل ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے جس میں ایسے دوطرفہ معاہدے ہیں جن کے تحت پاکستانی ہنرمند افراد کی تربیت اور ان کے کام کی جانچ کے بعد انہیں سعودی عرب بھیجا جائے گا جہاں مملکت ان کے تمام حقوق کو تحفظ فراہم کرے گی۔
پاکستان کا نیشنل ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن اور سعودی حکومت کا ذیلی ادارہ ’تکمّل‘ مل کر مملکت کے سکلز ویری فکیشن پروگرام کے تحت اس ہدف کی تکمیل کے لیے کام کریں گے۔ اس طرح پاکستانی ہنرمندوں کو سعودی مارکیٹ میں انڈیا سمیت دیگر ممالک کی ورک فورس سے مقابلہ کرنے اور نوکریاں حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
سرمایہ کاری اور تجارت معاشی تعاون کے دو اور میدان ہیں جہاں دونوں ممالک کے چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریز اپنی متعلقہ وزارتوں کی مدد کے کوششوں کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان میں ایک پیٹروکیمیکل کمپلیس اور آئل ریفائنری کے قیام کے لیے 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کر چکی ہے۔ تاہم اب بھی سعودی پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش موجود ہے۔
عالمی سطح پر کھیلوں کے سامان اور سرجیکل آلات بنانے کے لیے عالمی سطح پر مشہور پاکستان کا شہر سیالکوٹ سعودی سرمایہ کاری کے لیے آئیڈیل ہو گا۔ کراچی اور فیصل آباد کے صنعتی زونز بھی اچھا آپشن ہو سکتے ہیں۔ آئل ریفائنری اور پیڑوکیمکل کمپلیکس کے معاہدے سعودی پبلک سیکٹر انوسٹمنٹ کو سی پیک سے جوڑنے کا باعث بنیں گے۔ سی بیک راہداری پر بننے والے خصوصی صنعتی زونز بھی پرائیویٹ سعودی سرمایہ کاری کے لیے کشش کا باعث ہوں گے۔
اس وقت دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹریز کے نمائندوں کو اپنے روابط میں زیادہ تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی حکومت کو پرائیویٹ سعودی سرمایہ کاری کو ممکن بنانے کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے قانونی اصلاحات کے ذریعے مددگار ماحول قائم کرنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کہ سرمایہ کاری سہولت کے ساتھ واپس ہو سکے۔
دوسری جانب پاکستان کے کاروباری خاندانوں کے لیے سعودی عرب کی ریئل اسٹیٹ، سیاحت اور خدمات(سروسز) کے شعبے میں سرمایہ کاری کا موقع بھی موجود ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان نے شہری علاقوں کی ترقی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور یہ پاکستانی ہنرمندوں کے لیے بیرون ملک کام کے مواقعوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ سعودی عرب اس لیے سب سے زیادہ محفوظ اور مہمان نواز ماحول فراہم کر سکتا ہے۔
سیاسی اور ثقافتی طور پر انتہائی قریب ہونے کے باوجود بدقسمتی سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارت بہت کم سطح پر رہی ہے۔ حالیہ تخمینے کے تحت سالانہ تین ارب ڈالرز کی دو طرفہ تجارت کو مذاکرت کے عمل کو تیز کرنے اور ایک ’فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘ (ایف ٹی اے)کے ذریعے مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔
ایف ٹی اے پر مذاکرات 2018 میں شروع ہوئے تھے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے نمائندوں نے ایک دوسرے کے ممالک کے دورے بھی کیے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے سرکاری سطح پرصنعت کاروں اور تاجروں کے ان دوروں کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ باہمی تجارت کے قابل عمل منصوبوں کی دریافت ممکن بنا سکیں۔
معاشی تعاون میں سکیورٹی کے شعبے میں بھی تعاون کو بھی مستقل طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ حرمین شریفین کے تقدس کو دہشت گردی کی لہر سے بچانے کے لیے پاکستان ہمیشہ ایک اہم اور کلیدی شراکت دار رہا ہے۔ دونوں ممالک کی دفاعی انتطامیہ میں بےمثال فوجی تربیت اور مشاورت کے شعبوں میں بے مثال قریبی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے عسکری عہدے داروں کے ایک دوسرے کے ممالک کے تسلسل کے ساتھ دورے ایک روایت بن چکے ہیں۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔انہوں نے سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے اسلام آباد اور ریاض میں ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے قبل ان کے پیش رو جنرل راحیل شریف کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قائم 41 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت بھی پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی عسکری تعلقات کی مظہر ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان عالمی اور علاقائی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک افغانستان اور کشمیر میں امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو درپیش ’اسلاموفوبیا‘ جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی مشترکہ کاوشیں کر رہے ہیں۔
سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان حال ہی میں پاکستان کا دو مرتبہ دورہ کر چکے ہیں۔ گذشتہ برس دسمبر میں انہوں نے اسلام آباد میں عالمی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی جس کا مقصد افغانستان میں جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے اقدامات پر مشاورت تھا۔
سعودی وزیر خارجہ نے گذشتہ ماہ کونسل آف فارن منسٹرز کے 48ویں سیشن میں بھی شرکت کی جس میں کشمیر سمیت عالم اسلام کو درپیش مسائل پر غور کیا گیا۔ سٹریٹیجک معاملات پر پاکستان اور سعودی عرب کے تعاون میں مزید اضافے کی بھی ضرورت ہے۔
میں اپنی اس تحریر کا اختتام ہمارے طویل تاریخ کے حامل تعلقات اور ان میں ہونی حالیہ پیش رفت کے ذکر پر کرنا چاہوں گا جس میں مستقبل کی پائیدار ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ان دونوں ممالک درمیان ایک منفرد روحانی رشتہ بھی قائم ہے جس میں یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج و عمرہ مناسک ادا کرنے کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہر گزرتی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، معاشی، ثقافتی اور عسکری تعاون مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں یہ برادرانہ رشتہ نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ سعودی عرب اور پاکستان کے روشن مستقبل کے مشترکہ مقصد میں ان کا حامی و ناصر ہو۔
* * *
(ڈاکٹر علی العواض العسیری سعودی عرب کے سینیئر سابق سفارتکار ہیں جو 2001-2009 کی مدت کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر تعینات رہے۔ سعودی پاکستان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے خدمات پر انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ہلال پاکستان سے نوازا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر العسیری نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ “Combating Terrorism: Saudi Arabia’s Role in the War on Terror” (آکسفرڈ, 2009) کے مصنف ہیں جبکہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ارانین سٹڈیز، رصانة کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی ہیں۔ )