آر اے شمشاد
متحدہ عرب امارات میں جاری ایشیا کپ میں روایتی حریفوں کے درمیان سپر فور میں پہلا اور ایونٹ کا دوسرا ٹاکرا کل ہو گا ۔
ایونٹ میں پہلے میچ میں بھارت نے پاکستان کو شکست دی تھی تاہم ٹیم کی مجموعی کارکردگی نا صرف بہترین بلکہ قابل رشک قرار دی جا سکتی ہے ۔ قومی ٹیم کے اہم فاسٹ بائولر شاہین آفریدی کا بڑے میچ سے قبل ان فٹ ہو جانا اور اس کے بعد محمد وسیم کا بھی ٹیم کا حصہ نہ رہنا یقیناً ٹیم کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا تاہم نسیم شاہ نے جس طرح کی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش وہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ شاید بھارتیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی ۔تاہم کہا جاتا ہے کہ کرکٹ میں آخری وقت تک سب کچھ ممکن ہوتاہے ۔
بھارت سے ایونٹ میں پہلے میچ ہارنے کے بعد گزشتہ روز کھیلے گئے میچ میں اگر شاہینوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو خوشدل شاہ سے جس قسم کی امید پہلے میچ میں تھی وہ ہانگ کانگ کیخلاف میچ میں پوری ہوتی نظر آئی ۔ بلا شبہ خوشدل شاہ بہت باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور ان کی ٹیم میں موجودگی سے موجودہ کرکٹ میں انکار شاید ممکن نہیں ۔
چھوٹے فارمیٹ کی کرکٹ میں ٹیم کے پاس کم بیک کا امکان کم ہوتا ہے اس لئے آپ کو ایسے کھلاڑیوں کی ہر وقت ضرورت رہتی جو مڈل آرڈر میں آ کر حالات کے مطابق نہ صرف بیٹنگ کر سکیں بلکہ اچھا ٹوٹل دینے اور بڑے سکور کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔ اگر انہیں بھارت کیخلاف میچ میں افتخار کی جگہ موقع دیا جائے تو وہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں ۔
کسی بھی میچ میں پارٹنر شپ کی اشد ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر جب آپ روایتی حریف کیخلاف کھیل رہے ہوں ۔ اگر ٹیم پہلے 12اوورز میں 100یا اس کے قریب پہنچ جائے اور اس کے ساتھ میں وکٹیں بھی موجود ہوں تو آپ ایک اچھا سکور بنا سکتے ہیں کیونکہ اس دوران میں آپ کو نہ صرف پچ بلکہ بائولرز کی بھی اچھی خاصی سمجھ آ چکی ہوتی ہے ۔اس کا تجربہ آپ گزشتہ روز کے میچ میں دیکھ سکتے ہیں جب محمد رضوان اور فخر زمان کے وکٹ پر ٹھہرنے سے خوشدل شاہ کو بہت زیادہ آسانی محسوس ہوئی اور انہوں نے توقع کے مطابق اپنی کارکردگی دکھائی ۔
بلاشبہ افتخار ایک بڑے ٹوٹل کا دفاع کرنا جانتے ہیں ۔افتخار کا نمبر اگر آپ تھوڑا نیچے لے جائیں تو شاید شاہینوں کے پاس مارجن بڑھ سکتا ہے کیونکہ ٹیم میں آصف علی ، شاداب خان اور محمد نواز بھی نہ صرف وکٹ پر قیام کر سکتے ہیں بلکہ بڑی شارٹس لگانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔بیٹنگ کے دوران اگر بھارتی بلے بازی کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو نظر آئے گا کہ انہوں نے کپتان روہت شرما کے آئوٹ ہونے پر یادیو کی جگہ رویندرا جدیجا کو بیٹنگ کیلئے بھیجا تو بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے ہیں ۔
بھارت کیخلاف پہلے میچ میں اگر بائولنگ کی بات کی جائے تو جس کارکردگی کا مظاہرہ نسیم شاہ نے کیا اگر اگر پاور پلے کے دوران اس کے ساتھ ایک اوور حارث رئوف سے کروا لیا جاتا تو شاید بھارتی بلے بازوں کو سنبھلنے کا موقع کم ملتا تاہم کوہلی کے ڈراپ ہونیوالے کیچ نے کسی حد تو میچ کو بھارت کی جانب جانے میں مدد کی ۔
گزشتہ میچ میں بھارتی بلے بازوں نے جس محتاط انداز میں شاداب خان کو کھیلا اس کو دیکھا جائے تو محمد نواز کو شاداب خان سے پہلے موقع دیا جانا زیادہ مناسب لگتا ہے ۔اب تک کے کھیلے گئے میچز میں سپنرز سے آخری اوورکروانا کافی مہنگا ثابت ہوا ہے اگر آپ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے میچ کا جائزہ لیں تو وہاں بھی ایسا ہی کچھ نظر آیا جب مہدی کو شکیب الحسن نے آخری اوور کروایا ایسا ہی بھارت کیخلاف محمد نواز کا آخری اوور میں دیکھا گیا جس میں دونوں حریف ٹیموں کو کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور میچ جیتنے میں کامیاب ہو گئیں۔
شاہنواز دھانی بلا شبہ باصلاحیت بائولر ہیں تاہم ابھی تجربہ کی کمی نظر آ تی ہے تاہم وہ حریف بلے بازوں کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں ۔تاہم ٹیم میں اس وقت تین فاسٹ بائولر موجود ہیں جو سب رائٹ آرم ہیں تاہم ساتھ میں کسی بائیں ہاتھ کے فاسٹ بائولر سے حریف ٹیم کیلئے زیادہ مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں ۔
تاہم گزشتہ پاک بھارت میچ کی اگر بات کی جائے ایسے لگ رہا تھا جیسے قسم بھارت کے ساتھ تھی ۔ نسیم شاہ کا آخری اوور کرواتے ہوئے زخمی ہونا ایک بڑا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا ورنہ شاید نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا ۔ تاہم کرکٹ میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ آگے کی جانب بڑھنا چاہئے اور گزشتہ غلطیوں سے سیکھنا چاہئے ۔