تحریر :محمد بلال افتخار
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق روس نے چین سے فوجی اور معاشی امداد کی اپیل کی ہے۔۔۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ میں چینی سفارت خانے کی ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے اس بات کے متعلق کچھ نہیں سُنا ہے۔جبکہ چینی وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سے اس دعوے کو فیک نیوز قرار دیا ہے۔روس یوکرین تنازع کو لگ بھگ تین ہفتے ہو رہے ہیں۔۔ روس آہستگی سے لیکن مستقبل مزاجی سے اپنے اہداف حاصل کر رہا ہے۔۔ توقع کی جا رہی تھی کہ روس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ، امریکہ کی طرح وحشیانہ طریقے سے بمباری کریگا۔۔ لیکن توقع کے خلاف ایسا نہیں ہوا۔۔۔اب تک کی خبروں سے لگتا ہے کہ روس صرف یوکرینی فوج کی تباہی چاہتا ہے جس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہے گا جو مستقبل میں نیٹو کے حوالے سے روس کے لئے خطرے نہ پیدا کرے۔۔ اس کے ساتھ ساتھ روس یوکرین کی حکومت کو اپنے ہمسایہ اور سابق سویت ریاستوں کے لیئے مثال بھی بنانا چاہتا ہے۔۔گو مغربی ذرائع ابلاغ اس وقت انفارمیشن کے عالمی ذرائع پر چھائے ہوئے ہیں اور دنیا کو وہی تصویر دیکھائی جا رہی ہے جو مغرب دکھانا چاہتا ہے لیکن پھر بھی جو روسی اور چینی میڈیا رپورٹس سے سامنے آ رہا ہے اُس کے مطابق روس کثیر جہتی ڈومین میں یہ جنگ لڑ رہا ہے۔۔ اور مطلوبہ نتائج حاصل کر رہا ہے۔۔۔ اس جنگ میں شام میں حاصل ہونے والے تجربات کے ساتھ ساتھ ہائبر یڈ آپریشنز بھی زورون پر ہیں ۔ جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج کافی حد تک حاصل ہو رہے ہیں۔۔روس اور چین کو قریب لانے میں امریکہ نے قلیدی کردار ادا کیا۔۔ یونی پولیریٹی کے
زمانے میں امریکی من مانیوں نے روس اور چین سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ امریکہ اپنے مفاد کی خاطر اُن کی سالمیت اور اقتدار اعلی کے لیئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتا ہے ۔۔روبرٹ کیگن نے اپنی کتاب آن پیراڈائز اینڈ پاور میں امریکی سوچ کے محرک پر ایک تمثیل بیان کی تھی۔۔ مصنف لکھتا ہے کہ اگر آپ نے جنگل میں جانا ہو جہاں ایک خونخوار ریچھ رہتا ہو اور آپ کے پاس صرف ایک چھڑی ہو تو آپ کی کوشش ہو گی کہ آپ اپنا کام ایسے کریں کہ ریچھ سے آپ کا سامنا نہ ہو ۔۔جبکہ اگر آپ کے پاس آٹومیٹک بندوق ہو اور جنگل میں کام ہو تو آپ پہلے ریچھ کو ماریں گے اور پھر اپنا کام کریں گے۔
آج روس اور چین ہر معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے نظر آ رہے ہیں ۔۔جس کی وجہ امریکی رویہ ہے۔۔ پچھلے سال مارچ میں جو سلوک الاسکا میں مدعو کیئے گئے چینی لیڈرز کے ساتھ امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ بلنکن اور مشیر برائے قومی سلامتی جیک سیلوین نے کیمروں کے سامنے کیا وہ غیر سفارتی تو تھا ہی لیکن امریکہ انتظامیہ کے احساس برتری کو بھی ظاہر کرتا تھا۔۔ اسی طرح جو سلامی سلائسنگ کی پالیسی امریکی نے چین کے خلاف مشرق بعید ،خصوصاً تائیوان کے حوالے سے اپنائی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔۔چین ایک نئی سپر پاور ہے جبکہ امریکی زوال کے آثار ہر سو نظر آ رہے ہیں۔۔۔ اسی خوف میں امریکہ نے اپنے سینگھ چین سے پھنسا رکھے ہیں حالانکہ تجارتی جنگ ہو یا مشرق بعید کے معاملات ،چین نے ہمیشہ نرم رویا اپنایا جبکہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے سخت سگنل دیئے گئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی حجم6 بلین ڈالر ہے۔۔ اور خود امریکی معیشت کے لیئے چین اہم ترین ملک ہے ۔۔ امریکہ نے اپنی مرضی کے آڈر کی خاطر روسی سیکورٹی تحفظات کی پرواہ نہیںکی ۔۔ آج معاملات جس نہج پر ہیں اُس کی بڑی وجہ امریکی ہٹ دھرمی اور احساس برتری ہے۔۔یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی چین نے جو روس کے حق میں مثبت غیر جانبداری اپنائی وہ متوقع تھی۔۔ امریکی میڈیا میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے خبرلیک ہونا کہ روس نے چین سے مدد مانگی ہے بہت ذو معنی ہے۔۔ پھر امریکہ کی جانب سے چین کو انتباہ اُس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔۔ اس خبر سے تاثر بنتا ہے کہ چین امریکہ کے سامنے کمزور ہے اور چین امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔۔بادی النظر میں یہ صرف یورپ کو ایک سگنل دینے کی کوشش ہے۔۔۔ یورپ نے پچھلے سال تاریخی انویسٹمنٹ معاہدہ کیا ہے۔۔اسی طرح یورپ روس کی گیس پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔۔۔ تیل کے بڑے ذخائر رکھنے والے عرب ممالک امریکی لائین اپنانے پر تیار نظر نہیں آ رہے اور یورپ بھی امریکی رویے پر خوش نہیں ہے۔۔ ایسے میں چین کو پابندیوں کی دھمکیاں عجیب بات ہے۔ اسی طرح روس جو سابق سپر پاور اور موجودہ عالمی طاقت ہے وہ 3 ہفتوں میں ہی تھک گیا اور وہ بھی جب کہ اُس نے اپنی فوجی طاقت کو اُس طرح نہیں استعمال کیا جیسا توقع کی جا رہی تھی ،نا قابل فہم ہے۔چین اور روس امریکہ کو اب نہ صرف چیلنج کر رہے ہیں بلکہ اُس کی سیاست کو بھی کمزور کر رہے ہیں ایسے میں امریکہ کومحاذ جنگ بڑھانے نہیں چاہئے ہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے اپنا مقام واپس لینے کی جستجو کرنی چاہئے ہے۔