تحریر:سلمان احمد لالی
آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا، موجودہ سیاسی بحران کے دوران بہت سے لوگ یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنے پر مجبور ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے تین اپریل کو کیے جانے والے اقدامات کے بعد نہ صرف حکومت ختم ہو چکی ہے بلکہ پاکستان میں سیاسی بحران پہلے سے شدت اختیار کرگیا ہے۔
سب سے پہلے اگر تاریخ کو دیکھیں 1947میں آزاد ہونے والی مملکت خداداد میں تقسیم کے ساتھ ہی سیاسی ماحول کی وجہ سے جو کھلواڑ شروع ہو ا اسکے اثرا ت آج تک موجود ہیں۔ پاکستان کی بد نصیبی کا آغاز اپنے قیام کے چار برس کے بعد پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہوا۔ جن کے قاتلوں کا تعین آج تک نہیں ہو سکا ۔ بہت سے تحقیقاتی کمیشن بنے لیکن کئی سماعتوں اور گواہان سے بوچھ تاچھ کے بوجود آج تک قتل کے محرکات پر سے پردہ نہیں اٹھ سکا۔ جسٹس محمد منیر کے کمیشن نے رپورٹ میں لکھا کہ یہ قتل سید اکبر کا انفرادی عمل نہیں تھا اور حکومت کی تبدیلی سے متعلق کسی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
اسکا مطلب ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کیلئے یہ سازش تیار کی گئی تھی۔
آئی جی پولیس اعترزالدین نے از سر نو تحقیقات شروع کیں لیکن 1952میں وہ پر اسرار انداز میںجہاز حادثے کا شکار ہوگئے۔ انکے ہمراہ اس کیس متعلق تمام شواہد اور دستاویززات بھی جل کر راکھ ہوگئیں۔
حتیٰ کہ بعد میں اس مقدمے کی فائل بھی گم ہوگئی اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کی جاسکی ۔
بعد میں سکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی تحقیقات کروائیں گئی لیکن اس کی رپورٹ بھی آج تک منظر عام پر نہیں آسکی۔ لیکن بعد ازاں زیادہ مبصرین اور تجزیہ کاروں نے امریکہ بہادر کی طرف اشارہ کیا کہ ممکنہ طور پر قائد اعظم محمد علی جنا ح کے ساتھی، بانیان پاکستان میں سے ایک اہم رہنما اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کرنے کے پیچھے اسکا ہاتھ ہے۔ لیکن اس کی کبھی تصدیق نہیں ہوسکی۔
نواب لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پانچ سالوں میں چار وزرائے اعظم آئے اور گئے۔ محلاتی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ گئیں اور سول بیوروکریسی جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا سب سے طاقت وار حصہ تھا ، نےجمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور سیاستدانوں نے بھی ہوس اقتدار میں انکا پورا پورا ساتھ دیا۔
ان انیس سو اٹھاون سے لے کر 2007تک تین مرتبہ غیر آئینی و غیر قانونی طور پر فوجی حکومتیں رہیں۔ وزرائے اعظم کے برعکس فوجی آمروں نے طویل عرصے تک اقتدار پر قبضہ کیے رکھا۔
دوسری جانب پاکستان کے تین وزرائے اعظم کو قتل کردیا گیا ۔ جن میں لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو جنہیں ایک منتازع مقدمے میں قتل کی سزا سنائی گئی اور آج بھی پاکستان کے تمام مورخ اور سیاسی دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ انکی موت عدالتی قتل کے مترادف تھا۔
اسکے علاوہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میںانتخابات سے پہلے ہی قتل کردیا گیا۔
نوے کے دہائی میں جس طرح باریاں لگیں اور 58ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے بار بار حکومتوں کو گرانے کا سلسلہ شروع رہا وہ کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ 2007کے بعد سے حکومتیں مدت تو پوری کرتی رہیں لیکن وزرائے اعظم پھر بھی پانچ سال پورے نہ کرسکے ۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف دونوں ہی عدالتوں کی ذریعے نکال باہر کیے گئے ۔ عمران خان کے ساتھ جو معاملات ہیں وہ تو قوم کی یاداشت میں تازہ ہیں ہی۔
لیکن لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو اور عمران خان میں یہ قدر مشترک ہے کہ انکو اقتدار سے نکالنے کے حوالے سے امریکی سازش کا الزام ضرور عائد کیا گیاہے۔ عمران خان اس امریکی سازش کی بہت سے جزئیات سامنے لے آئے ہیں لیکن اسکے باوجود اپوزیشن کی جانب سے اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر کی جانب سے انہیں نظرانداز کرکے اور اسے جھوٹ قرار دینے کی حکمت عملی جاری ہے۔ اس دوران غیر ملکی سفیروں کی پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اور اپوزیشن رہنماوں کے ساتھ ملاقاتوں کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں ۔
سیاستدانوں کے موجودہ طرز عمل سے لگتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے ہی نہیں۔ اقتدار کی کشمکش میں تمام فریقین اسٹبلشمنٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ لیکن اس سے ملک میں بعض اہم قومی سلامتی کے اداروں کا تاثر خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
وزرائے اعظم کو کون کام نہیں کرنے دیتا یا انکو اپنی مدت پوری کیوں نہیں کرنے کی دی جاتی اس حوالے کئی سازشی تھیوریا ں موجود ہیں ۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی جمہوری استحکام نہیں چاہتی تاکہ اسکا کردار ملکی معاملات میں موجود رہے۔ دوسری ممکنہ طور پر وجہ سیاستدانوں کا غیر جمہوری رویہ ہے جو حکومت ہٹانے کیلئے کسی بھی سازش کا حصہ بننے کیلئے تیار رہتے ہیں۔