تحریر:سلمان احمد لالی
ایک لمحے کےلیے ٹھہر جائیں، ذرا رک کر اطمینان سے ارد گرد کا جائزہ لیں۔ اپنی نفرت اور سیاسی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی حالت پر طائرانہ نظر ڈالیں۔ ملک کہا ں لا کہ کھڑا کردیا گیا ہے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا جواب دیں گے۔ اور ہم روز قیامت اپنے آبا و اجداد کو کیا جواب دیں گےکہ جن کی قربانیوں کے ہم مقروض ہیں۔
سیاستدان سیاست کررہے ہیں، مقتدر حلقے اقتدار کواپنے مضبوط شکنجے میں جکڑ کر رکھنے کیلئے چالیں چل رہے ہیں ، عوام نفرت اور غصے کی آگ میں جل رہے ہیں اور ملک یتیموں کی طرح تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ اقتدار سے جانے والے اسکی محرومی کے غم میں اپنی چھاتیاں پیٹ پیٹ کر ٓہو بکا کر رہے ہیں اور اقتدار پر فائزلوگ اپنےخلاف بدعنوانی کے مقدمات ، اور مسند اقتدارتک اپنی راہ ہموار کرنےکیلئے ایسی نام نہاد اصلاحات کا ڈھونگ رچانے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے۔
ایوانان اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کی بھبھکے اڑانے والی بو اور عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بیوقوف بنانے کے طرز عمل سے گھٹن کا احساس شدید ترہوتا چلا جارہا ہے اور یہ گھٹن ہے کہ اب بڑھتی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہےکہ یہ ملک خداد اد چند خاندانوں کا پیٹ بھرنے کیلئے بنایا گیا ، اور پاکستانیوں کو صحیح معنوں میں آزادی دینے کے بجائے مقتدر حلقوں کی ہوس اقتدار کا اسیر بنانے کیلئے حاصل کیا گیا۔
آج نظریہ نہیں بیانیہ چلتا ہے، چاہے جھوٹ پر ہی مبنی ہو۔ آج خواب بیچے جاتے ہیں ، ترقی کے خواب، بہتر زندگی اور مستقبل کے خواب، معاشی خوشحالی کے خواب اور پھر بڑی بے دردی اور بے رحمی سے ان خوابوں کو چکنا چور کردیا جاتا ہے۔ جیسے یہ ایک کھیل ہو، احساس سے عاری اوباش لوگوں کا ، عوام کوفٹ بال کی طرح ٹھوکروں سے اڑا کر قہقہے مارنے والوں کا کھیل۔
کبھی سویلین بالادستی کا سودا بیچا جاتا ہےا ور کبھی قومی مفاد کا ڈول ڈالا جاتا ہے۔ کبھی انسداد کرپشن کی نوید سنائی جاتی ہے اور کوئی سستی روٹی کی بھیک دینے کی کوشش کرتا ہے۔
اعصاب شل ہوئے جاتے ہیں، ہمت جواب دیتی جارہی ہے امید اور یاس کے اس بے رحم اور جھوٹے کھیل کو کھیلتے کھیلتے۔ جلد انتخابات کا موسم آنے والا ہے، پھر سے وعدوں اور الزامات کی بازگشت سنائی دے گی لوگوں کو پھر سے طشتری میں سجا کر امید کی بھیک دی جائے گی لیکن فیصلہ پہلے سے ہی ہو چکا ہوگا۔ عوام کو ایک ڈرامہ رچا کر یہ یقین کرنے دیا جائے گا کہ ہاں تم ہو اس ملک کے مالک، تم ہو اس ریاست کی تقدیرکا فیصلہ کرنے والے اور بہت سے لوگ اس پر یقین کربھی لیں گے۔ لیکن فیصلے جہاں ہوتے ہیں وہیں ہوں گے۔ ہم جیسے چند خبطی لوگ چیختے چلاتےرہ جائیں گے لیکن کھلواڑ ہو کے رہےگا۔
کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں، راشن ختم ہو چکا ہے، بچوں کے سکولوں کی فیسیں دینے کے پیسے نہیں ہیں، جو بد نصیبی سے بیماری آن گھیرے تو ڈاکٹر کی فیس اور دوا دارو کیلئے بھی کچھ نہیں لیکن عوام کو معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر رکھا ہے۔ کبھی آئی ایم ایف کی بھیک کی نوید سنائی دیتی ہے اور کبھی سعودی عرب سے ریالوں کی چھنکار سنواتے ہیں۔ کبھی تجارتی خسارے کو رونا روتے ہیں اور کبھی برآمدات میں اضافے پر چھلانگیں لگاتے ہیں۔ بھلا کسی مزدور دیہاڑی دار سے پوچھ کر تو دیکھو اسکی زندگی کیسی ہے۔ کبھی اس بیوہ سے تو پوچھ کر دیکھو کہ وہ اپنے یتیم بچوں کو کیسے روٹی کھلاتی ہے۔ کبھی اپنے پر تعیش قطار وار گھروں کے ان قبرستانوں سے نکل کر عام لوگوں کی بستیوں کارخ تو کروجہاں عسرت کی تصویر بنی ماوں کے شیر خوار بچے بھوک اور افلاس کا استعارہ بنے خاک میں لت پت پھرتے ہیں۔ ذرا ان بچوں پہ بھی نظر ڈالیں جن کے ہاتھوں میں کتابوں اور کھلونوں کے بجائے جھاڑوپکڑا دیا جاتا ہے۔ کبھی انکے دلوں میں جھانکنے کی کوشش توکریں کبھی ان آنکھوں میں بسی حسرتوں کو محسوس تو کریں کہ جو تم کھاتے ہووہ اسے ترسی نگاہوں سے دیکھ دیکھ کر تمہاری انسانیت کو جھنجھوڑ رہے ہوتے ہیں۔
یہ نظام ، یہ کیسا نظام ہے جسے سب بچانے کیلئے ہلقان ہوئے جاتے ہیں ، یہ ہی نظام ہے جو ان بچوں کی عزت نفس کو مجروح کرکے غلاموں کی ایک نسل تیار کرنے کا موجب ہے۔ یہ ہی نظام ہے جو بیواوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے اپنی عزت پامال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ہی نظام ہے جو سسکتے مریضوں کو موت کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتاہے۔ لیکن سلامت رہے یہ نظام جو چند خاندانوں کی دولت اور سیاست کا امین اور ضامن ہے۔ سلامت رہے یہ نظام جسے توڑ مروڑ کر شانے پر چمکتےستارے سجانے والے اپنے اقتداراور طاقت کی ہوس کو شاد کرتے ہیں۔ سلامت رہے یہ نظام جہاں ممبر و محراب کے اجارہ دار،دستار فضیلت سرو ں پر سجائے ، سرکار قبلہ بنے، چندوں کی بھینٹ وصول کرکے لوگوں کے ایمان سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
سیر رہیں تمہارے پیٹ چاہے لوگ بھوکے مرجائیں۔ اونچی رہے تمہاری انا چاہے انسانیت سسک سسک کر دم توڑ دے۔ یہ بازار ہے اور تمہیں یہاں سب بیچنے کی اجازت ہے ، چاہے خوف بیچو یا مذہب، کوئی قید نہیں ۔