اسلام آباد (پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہوگئی ۔ آج عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت 5رکنی نیا بینچ کر رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی نئے بینچ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا،سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا۔جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے۔
وکیل ہائیکورٹ بار عابد زبیری نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 105/3 قانون کہتا ہے کہ گورنر کو الیکشن کے لیے تاریخ دینا ہوتا ہے۔18ویں ترمیم سے پہلے صدر تاریخ کا اعلان کرسکتا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ گورنر کا اقدام صدر کا اقدام ہوتا ہے؟
وکیل عابد زبیری نے کہا ہے کہ اگر گورنر اسمبلیاں ختم نہیں کرتا تو پھر کیا صورتحال ہوگی، اس پر دلائل دونگا۔آرٹیکل 224اے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صدر یا گورنر قائم مقام حکومت بنائینگے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کےتحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کےتحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کےساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنےکی کیا ضرورت ہے؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ اس پر سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت کاکام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نگران وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے؟ وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ 105 آرٹیکل میں ترمیم کے بعد کی صورتحال بتا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہایہ معاملہ شاید صدر کا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ ایسی صورتحال میں جب گورنر کردار ادا نہ کریں تو صدر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں خاص طور پر جب عام انتخابات کی بات ہو تو پھر 90دن میں تاریخ دینا ضروری ہے۔سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا۔کیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے،آئین کی مختلف شقوں کی ہم آہنگی ضروری ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے؟
عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ اگر صدر الیکشن کی تاریخ مشاورت سے دے سکتے ہیں توکیا گورنر بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ مشاورت شاید الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ اگر گورنر الیکشن کرانے پر مشاورت کرتے ہیں توپھروہ وسائل سے متعلق بھی پوچھ سکتے ہیں ؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا۔گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےاستفسار کیا کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی ؟
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے دلائل دیے کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہوناہے ، نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ ہمیں علم ہے کہ صدر جو بھی عمل کریں گے وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ساتھ کریں گے۔صدر اپنے اختیارات کن قوانین کے تحت استعمال کرتے ہیں ، معاونت کریں۔