برکس سربراہی اجلاس کی تیاریوں پر غور، وزرائے خارجہ کا جنوبی افریقہ میں اجلاس

جوہانسبرگ(پاک ترک نیوز)
برکس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اگست میں ہونے والے آئندہ سربراہی اجلاس کی تیاریوں، علاقائی اور عالمی مسائل، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات، کثیرالجہتی تحفظ، سلامتی، پائیدار ترقی، انسداد دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلیوں، توانائی کی سلامتی اور باہمی تعاون پر بات چیت کی گئی ہے
یہ بات جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی تعلقات اور تعاون کی وزیر نیلیڈی پانڈور نے ہفتہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس جمعہ کو کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں برازیل کے وزیر خارجہ مورو ویرا، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤسو نے شرکت کی۔وزراء نے علاقائی اور عالمی مسائل، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات، کثیرالجہتی کے تحفظ، سلامتی، پائیدار ترقی، انسداد دہشت گردی، موسمیاتی، توانائی کی سلامتی اور باہمی تعاون پر بات کی۔یکطرفہ بین الاقوامی پابندیوں کی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور عالمی معیشت پر ان کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں برکس ممالک کے لیے مشترکہ کرنسی متعارف کرانے اور گروپ میں نئے اراکین کو قبول کرنے پر بھی بات ہوئی۔
چینی نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ سونے کہا کہ برکس ترقی پذیر ممالک کے لیے یکجہتی کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کا بہت خیرمقدم کیا جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم برکس خاندان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرنے والے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر خوش ہیں۔مورو ویرانے کہا کہبرکس 15 سالہ کامیابی کی کہانی ہے۔
پانڈور نے بتایا کہ 15 ویں برکس سربراہی کانفرنس 22-24 اگست کو جوہانسبرگ میں منعقد ہوگی ۔ انہوں نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ تقریب کسی دوسرے ملک میں شیڈول ہو گی کیونکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یوکرین میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر روسی صدر ولادیمیر پو ٹن کی گرفتاری کا فیصلہ دے رکھا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگست میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے شرکاء کو سفارتی استثنیٰ فراہم کرنا ایک معیاری طریقہ کارہے اور یہ بین الاقوامی عدالتوں کے کسی فیصلے کے خلاف نہیں ہے۔

#brics#China#johansburg#PakTurkNews#saudiarbaia#southafricairanrussia