انقرہ(پاک ترک نیوز)
صدر رجب طیب اردوان نے ترکیہ کی سیاست میں مذاکرات کی حالیہ کالوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کے تبصرے اتحادیجماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنمادیولت باہیلی کے 1 اکتوبر کو پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی کے عہدیداروں سے مصافحہ کے بعد سامنے آئے۔
باہیلی نے پھر 8 اکتوبر کو اس واقعہ کواپنےـ” قومی اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام” کے طور پر بیان کیا۔
اردوان نے بلقان کے دورے کے بعد اپنے طیارے میں سوار نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ایک ہاتھ ہے جو واضح طور پر اور پختہ طور پر بڑھا ہوا ہے۔ اس کے ذریعے مسٹر باہیلی ترکی کے سیاسی ڈھانچے میں مفاہمت اور بات چیت کے مطالبے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔انہوں نے جو قدم اٹھایا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک بہت ہی اہم قدم ہے۔
ایم ایچ پی رہنما نے ڈی ای ایم پارٹی کے عہدیداروں کے ساتھ اپنے مصافحہ کو ایک اشارہ اور دعوت کے طور پر بیان کیا کہ "ایک ساتھ آئیں اور دہشت گردی کے خلاف موقف اختیار کریں۔”
اردوان نے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے عزم کو دہرایا۔
اردوان نے کہا کہ جیسے جیسے یہ اقدامات کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، ہم نئے آئین پر سماجی اتفاق رائے کی بنیاد کو وسیع کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایک نئے آئین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ترکوںکے پیروں میں ڈالے گئے طوق کو ہٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک جامع، منصفانہ، شہری اور آزادی پسند آئین بنایا جائے۔اردوان اور حکومتی عہدیداروں نے طویل عرصے سے موجودہ آئین کو 1980 کی فوجی بغاوت کی پیداوار قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نئے آئین کی تجویز کو رکاوٹوں کا سامنا ہے کیونکہ حکمران بلاک کے پاس تجویز کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری پارلیمانی اکثریت نہیں ہے۔اس عمل کو ریفرنڈم تک پہنچانے کے لیے اسے اپوزیشن کے 30 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کی حمایت درکار ہوگی۔
یکم اکتوبر کو ہونے والے پلینری کے دوران باہیلی نے حزب اختلاف کی مرکزی اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے رہنما اوزگر اوزیل کے ساتھ ایک مختصر بات چیت میں بھی حصہ لیا۔