از: سہیل شہریار
ترکی کو F-16 طیاروں اور اپ گریڈ کٹس کی خریداری کے جوابی وزن کے طور پر یونان کو 40 F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی امریکی منظوری نے ایجیئن میں افواج کے توازن کے بارے میں بحث کو پھر سے جنم دیا ہے۔ایتھنز کے پہلے سے مختص دفاعی خریداری کے پروگرام کی بنیاد پر 2030 میں افواج کا توازن کیسا نظر آئے گا۔اس کا اجما لی جائزہ پیش ہے
اس جائزے میں اہم ہتھیاروں کے نظاموں میں یونانی-ترک طاقت کے توازن کوجانچنے کے لئے لڑاکاطیاروں، بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیوں (ڈرونز)، فریگیٹس اور آبدوزوں – جیسا کہ اس وقتموجود ہیں اور 2030 میں ہونے کا امکان ہے کی تفصیلات کو شامل کیا جا رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ لڑاکا طیاروں کے حوالے سے ہیلینک ایئر فورس ترک ائر فورس سے کئی قدم آگے ہے۔ یونان کی فضائیہ کے پاس پہلے سے ہی جدید فرانسیسی ساختہ رافیلز موجود ہیں اور 83 F-16 طیاروں کو وائپر کنفیگریشن میں جدید بنانے کا عمل جاری ہے۔ اور اب ترکیہ سےپہلے F-35 کی آمد متوقع ہے۔ جو شاید 2030 تک اندراویڈا ایئر بیس پر پہنچ جائیں گے۔تاہم، F-16 اپ گریڈ کے ساتھ کچھ مسائل ہیں، کیونکہ الیکٹرانک کاؤنٹر میژرز سسٹمز اور ریڈارز کے درمیان مطابقت کا مسئلہ ہے۔
آج کی ترک فضائیہ تقریباً خصوصی طور پر F-16s کےعلاوہ کچھ پرانے F-4E فینٹمز پر مشتمل ہے اور وہ نئے طیاروں کے حصول اور موجودہ طیاروں کی اپ گریڈنگ کے ساتھ ساتھ تقریباً 900 میزائلوں کے لیے امریکی منظوری حاصل کرنا چاہتی تھی۔اب امرکی حکومت نے 40نئے F-16طیاروں سمیت اسکے 79پرانے جہازوں کو جدید بنانے کے لئے کٹس کی فراہمی کی منظوری دی ہے۔ اس منظوری سے ایک طرح کا توازن برقرار رہے گا جو امریکہ بظاہر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس وقت یونان فضائی طاقت میں ٹیکنالوجی میں ایک قدم آگے ہے۔مگر اب امرکیہ کے ترکیہ کو بھی F-35پروگرام میں شامل کرنے کا عندیہ دئیے جانے کے بعد صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
جہاں تک ڈرونز کا تعلق ہے تو ترکیہ کو یونان پر واضح برتری حاصل ہے۔ ترکیہ ڈرون کا ایک بڑا برآمد کنندہ بننے میں کامیاب ہو گیا ہے اور اسے ایک بڑے برآمدی فائدہ میں تبدیل کرچکا ہے۔ ترکیہ کی دفاعی صنعت کی برآمدات 2023 میں 5.5 بلین یورو تک پہنچ گئیں۔ جس میں ڈرونز اور متعلقہ نظاموں کا بڑا حصہ تھا۔ یورپی ممالک جیسے البانیہ، پولینڈ اور یوکرین نے غیر یورپی ممالک جیسے آذربائیجان، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، لیبیا، پاکستان، سعودی عرب اور صومالیہ کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام وسطی ایشیائیریاستوں نے ترکیہ سے ڈرون خریدے ہیں۔یونان اس شعبے میں بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں وزیر دفاع نکوس ڈینڈیاس نے ڈرون کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز کے پرزوں کی تیاری کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بحریہ میں صورتحال اور بھی مشکل ہے، جہاں یونان کو معیار کا فائدہ حاصل ہے۔ ہیلینک نیوی کا بحری بیڑا بوڑھا ہوتا رہتا ہے اور ملک کی جہاز سازی کی صلاحیتیں محدود یا ناکافی طور پر ترقی یافتہ ہیں۔ اعداد و شمار واضح طور پر یونان کے مسائل کو بے نقاب کرتے ہیں۔ملک فرانسیسی ساختہ تین فریگیٹس کی توقع کر رہا ہے۔ اور، F-35s کے حصول کے ساتھبونس کے طور پر امریکی اسٹاک سے چار ساحلی جنگی جہاز (LCSs) کے حصول کی توقع رکھتا ہے۔ اسی پروگرام میں امریکی بحریہ کے لیے 20 کنسٹیلیشن کلاس ملٹی مشن فریگیٹس کی اٹلی کی تعمیر میں یونانی شمولیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے اپنی جہاز سازی کی صلاحیتوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے۔ اس کی بحریہ نے استف کلاس کا پہلا فریگیٹ فراہم کیا ہے اور اس کے شپ یارڈز 2030 تک مزید تین جہاز فراہم کریں گے۔ جوکم قیمت یعنی فی یونٹ350 ملینیورو سے زیادہ لاگت کے نہیں جو ایک اضافی فائدہ ہے۔
اپنے MILGEM ("قومی جہاز”) کے تعمیراتی پروگرام کے تحت ترکیہ کو پہلے ہی 150 ملین یورو کی یونٹ لاگت سے کئی اڈا کلاس کارویٹس مل چکے ہیں۔ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ، اس کی ضروریات جتنی زیادہ ہو، یونان مقابلہ نہیں کر سکتا جہاں تک جہازوں کی تعداد کا تعلق ہے؛ قیمت فیصلہ کن عنصر ہے.
یونان اپنی جرمن ساختہ ٹائپ 214 آبدوزوں کے ساتھ پانی کے اندر برتری رکھتا ہے، اور 2030 تک مزید دو آبدوزیں حاصل کرنے جا رہا ہے۔ ترکیہ آبدوزوں کی تعداد اور معیار میں پیچھے ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی پہلی ٹائپ 214 حاصل کی ہے اور اور اس کا مقصد 2030 تک استنبول کے شپ یارڈز میں مزید پانچ آبدوزیں بنانا ہے۔ ٹائپ 214 انتہائی موثر ہیں، یہ بات 2020 میں ثابت ہوئی جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہواتھا۔