غزہ(پاک ترک نیوز) فلسطینی جہادی تحریک حماس اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے غزہ میں پیشگی جنگ بندی کے اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور قیدیوں کی رہائی کےلیے مذاکرات سے متعلق امریکی تجویز کو قبول کرلیا۔
حماس نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے طے پانے والے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیلی فوجیوں سمیت تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت شروع کرنے کی امریکی تجویز کو قبول کرلیا۔
حماس کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ حماس اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے کہ پہلے اسرائیل مستقل جنگ بندی کا معاہدہ کرے، پھر قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
بین الاقوامی سطح پر ثالثی کوششوں میں شامل فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ اگر اسرائیل یہ تجویز قبول کرلے تو فریم ورک معاہدہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان نو ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اسرائیل کی مذاکراتی ٹیم میں شامل اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب معاہدہ طے پانے کا حقیقی موقع ہے، کیونکہ اس سے قبل اسرائیل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے حماس کی تمام شرائط کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ترجمان نے خبر پر فوری طور پر اپنا مؤقف نہیں دیا، تاہم ان کے دفتر سے جاری بیان مین کہا گیا ہے کہ کہ بات چیت اگلے ہفتے بھی جاری رہے گی اور فریقین کے درمیان اختلافات اب بھی باقی ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں 38,000 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
حماس کے افسر نے کہا کہ نئے منصوبے کے تحت ثالث ممالک غزہ میں عارضی جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی ضمانت دیں گے جب کہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے بالواسطہ بات چیت جاری رہے گی۔حماس نے غزہ میں کسی بھی نام اور جواز کے ساتھ غیر ملکی افواج کی آمد اور تعیناتی کو مسترد کردیا۔
حماس نے بیان میں کہا کہ غزہ میں کسی بھی غیر ملکی فوج کو بھیجنے کے منصوبے کو مسترد کرتےہیں، غزہ کا انتظام چلانا خالصتا فلسطینی معاملہ ہے اور فلسطینیوں کے سوا کسی دوسرے کو ہمارا سرپرست بننے یا باہر سے ہم پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں، فلسطینی عوام بیرون ملک سے کسی کو متوازی حکومت کے طور پر بھی قبول نہیں کرتے۔