تل ابیب (پاک ترک نیوز) جنوری کے اوائل میں، اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ علاقے میں حماس کی عسکری سرگرمیوں کو "ختم کرنے” کے بعد شمالی غزہ سے اپنی کچھ فوجیں نکال رہا ہے۔
غزہ پر اس کی جنگ کے آغاز کو تین ماہ گزر چکے تھے، 26ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے تھے اور اسرائیل نے تیزی سے اپنی توجہ وسطی اور جنوبی غزہ کی طرف مرکوز کر لی تھی، یہاں اس نے خان یونس شہر کو خاص طور پر گھیرے میں لے کر نشانہ بنایا ہے۔
لیکن 16 جنوری کو حماس نے 25 راکٹ شمالی غزہ کی پٹی سے جنوبی اسرائیلی شہر نیتیووٹ پر داغے۔ اگرچہ کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا، اس حملے نے اسرائیلی دعوں کی قلطعی کھول دی ہے کہ وہ 100 دن سے زائد جنگ کے بعد بھی حماس کو تباہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
7 اکتوبر کو اسرائیلی کمیونٹیز اور فوجی چوکیوں پر حماس کے مہلک حملے کے بعد سے، جس میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے اصرار کیا ہے کہ وہ فلسطینی مسلح گروپ کو "ختم” کرنا چاہتی ہے۔
اس وقت، بہت سے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا تھا کہ اس گروپ کو تباہ کرنا ایک غیر حقیقی مقصد ہے جو غزہ کی شہری آبادی پر عائد ہونے والے اخراجات کو بڑھا دے گا۔ اب حماس کے شمالی غزہ سے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کے دوبارہ حاصل ہونے کے تازہ آثار ان پیشین گوئیوں کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
عمر ایچ رحمان، جو کہ مشرق وسطیٰ کے عالمی امور کے تھنک ٹینک کے ساتھ اسرائیل-فلسطین کے ماہر ہیں نے کہا کہ میرے خیال میں راکٹ حملے بڑے پیمانے پر اسرائیلیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حماس کو ختم کرنے کا ان کا مقصد ناکام ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ اب بھی راکٹ فائر کر سکتے ہیں اور اگر آپ اب بھی فوجیوں پر حملہ کر سکتے ہیں – ان تمام جگہوں کے شمال میں جہاں اسرائیل نے 112 دنوں سے محاصرہ کر رکھا ہے – تو پھر حماس کو تباہ کرنے کا جنگی مقصد ناکام ہو رہا ہے۔