امریکا کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں؛ اسرائیل آپ کا وفادار اور ثابت قدم ساتھی رہے گا، نیتن یاہو

واشنگٹن(پاک ترک نیوز) اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں غزہ جنگ میں اپنے اتحادیوں کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی عوام کی جانب سے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے امریکا آیا ہوں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا امریکی کانگریس سے یہ چوتھی بار خطاب تھا جس سے آنجہانی برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا امریکی کانگریس سے سب سے زیادہ بار تقریر کرنے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کو غزہ میں جارحیت کے باعث شدید تنقید اور مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ نیویارک کے الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز اور سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے تقریر سننے سے انکار کر دیا تھا۔اسی طرح کچھ ارکان خطاب کے دوران ہی اپنی ہی نشستیں چھوڑ کر ایوان سے باہر نکل گئے۔
نیتن یاہو کی تقریر کے دوران پارلیمنٹ کے باہر عوام کا جم غفیر جمع ہوگیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ پولیس نے 200 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
یہ مظاہرہ اتنا شدید تھا کہ نیتن یاہو اس احتجاج کا اپنی تقریر میں زکر کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے مظاہرین کو کہا کہ تم لوگ احمق ہو اور جان بوجھ کر ایران کا آلۂ کار بن رہے ہو۔
اسرائیلی وزیراعظم نے صدر بائیڈن کی غزہ جنگ میں حمایت کا شکریہ ادا کیا اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرنے، یروشلم کو دارالحکومت ماننے اور امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کرنے سے ایران کی جارحیت کا مقابلہ کرنے تک پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
امریکی ارکان اسمبلی کی تالیوں کی گونج میں نیتن یاہو نے غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کے اپنی جنگی عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس ہتھیار ڈال دیتی ہے تو غزہ کی جنگ ختم ہو جائے گی۔
اسرائیلی وزیراعظم نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ہم غزہ میں بے گھر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں غزہ کو فلسطینی سول انتظامیہ کے زیر انتظام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ غزہ کا انتظام ایسے فلسطینیوں کے زیر انتظام ہونا چاہیے جو اسرائیل کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔
نیتن یاہو نے امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے غزہ میں مشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے ہتھیاروں کی فوری فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ میں آپ کو ایک چیز کا یقین دلانے آیا ہوں کہ ہم جیتیں گے۔ یرغمالیوں کی واپسی کی پرامن کوششیں کامیاب ہوں گی اور تب تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔