پشاور (پاک ترک نیوز) پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواستیں خارج کردیں ۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، بنچ میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور سید ارشد علی شامل ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر پشاور ہائی کورٹ پہنچے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات ڈے سے پہلے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ دے کر بلا واپس کردیا تھا، سپریم کورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ دے کر بلا واپس لیا، پی ٹی آئی امیدواروں کو مختلف نشانات دیئے گئے پھر بھی عوام نے ووٹ دیے۔
آرٹیکل 103 سیکشن سی کے تحت مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے :علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بطور آزاد امیدوار الیکشن جیتنے کے بعد سنی اتحاد کونسل نے شمولیت اختیار کرلی، قومی میں 86، پنجاب 107،کے پی 90،سندھ میں 9 ازاد امیدواروں نے شمولیت کی، بلوچستان میں 1 آزاد امیدوار نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، آرٹیکل 103 سیکشن سی کے تحت مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری توقع تھی کہ مخصوص نشستیں مل جائیں گی،الیکشن کمیشن پابند تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو 78 سیٹیں دے دیتے، لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہم پورے ملک کی مخصوص نشستوں کا معاملہ سن رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں صرف قومی اور خیبرپختونخوا کا آپ سن رہے ہیں ۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ہم اس کیس کا فیصلہ کرینگے،6 مختلف درخواستیں دی گئیں کہ سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں نہ دی جائے، 3 وجوہات ان درخواستوں میں لکھی گئی تھیں، پہلا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا، دوسرا مخصوص نشستوں کی لسٹ الیکشن سے قبل جمع نہیں کی، تیسرا یہ کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں ان جماعتوں میں تقسیم کی جائیں، سنی اتحاد کونسل کو اس لیےمحروم کیا جارہا ہے کہ لسٹ جمع نہیں کی ، آئین کہتا ہے جس جماعت نے جتنی سیٹیں جیتیں اس کے مطابق مخصوص نشستیں دی جائیں گی، الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ چیلنج کیا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں قبضہ گروپس کو دی گئیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ قبضہ گروپس نہ کہیں، ان کو سیٹیں تو الیکشن کمیشن نے دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کل سوال آیا کہ کیا قومی اسمبلی نشستوں پر اس کورٹ کا اختیار بنتا ہے؟ اس پر بات کرنا چاہتا ہوں، 6 سوالات ہیں جو عدالت نے اٹھائے وہ بہت اہم ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ میرے خیال میں سیاسی جماعت وہ ہے، جو ان لسٹ ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 210 اور 202 میں سیاسی پارٹی کا ذکر موجود ہے، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا لیکن یہ ضروری نہیں، بائیکاٹ بھی الیکشن کا حصہ ہوتا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اگر ایک پارٹی الیکشن نہ لڑے تو پھر پولیٹیکل پارٹی ہوتی؟ پولیٹیکل پارٹی تو سیٹیں جیتنے کے لیے الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کا اختیار ہے، آئین میں پولیٹیکل جسٹس کا ذکر واضح لکھا گیا ہے، ہر وہ شہری جو سرکاری ملازم نہ ہو وہ سیاسی جماعت بناسکتا ہے یا کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 72 کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کئی حقوق حاصل ہیں، سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں، حکومت بنا سکتی ہیں، مخصوص نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہوگا، میں پہلے اس پر بات کررہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، اگر میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں، الیکشن کمیشن پارلیمانی پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرنے میں کنفیوژ ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے پانی پینے کی اجازت مانگ لی، عدالت کا کہنا تھا کہ آپ مسافر ہیں اور مسافر کو پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ گلا خراب ہے، پانی نہیں لوں گا، تو گلا بند ہو جائے گا، عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو پانی پینے کی اجازت دے دی۔
بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ آرٹیکل 51 (3) سیاسی جماعتوں کو سیٹیں دینے کی وضاحت کرتا ہے، مخصوص نشستیں کوٹے کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں، جتنی سیٹ کوئی جماعت جیت جائے اسی حساب سے مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں، نہ کم اور نہ ہی زیادہ، اگر کوئی جماعت 4 سیٹ جیت جائے تو اس کو 1 سیٹ ملے گی ۔
عدالت نے استفسار کیاکہ کیا آزاد امیدوار کو آزاد رہتے ہوئے بھی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟جس پرعلی ظفر نے کہا کہ نہیں آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے، کسی جماعت کو مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کرنے یا نہ کرنے تک محدود رکھنا غیر قانونی ہے ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل پولیٹیکل پارٹی کیسے بنی؟ پارٹی نے جنرل الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں جیتی، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نےالیکشن میں حصہ نہیں لیا کوئی سیٹ نہیں لی، بطور سیاسی پارٹی موجود ہے، اگر کسی پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، 10 آزاد امیدوار اس پارٹی میں آجاتے ہیں تو تعداد 10 ہی ہوگی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس ایک سیٹ بھی نہیں تو آپ کو آزاد امیدوار جوائن نہیں کرسکتے۔
عدالت نے کہا کہ کم از کم ایک سیٹ تو جیتنا لازمی ہے نا کسی پارٹی کو، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے تو خود بھی آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا، جس نے نہ الیکشن میں حصہ لیا اور نہ مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کی، اگردوسرے 10 یا 15 آزاد امیدوار بھی کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں کل تو وہ بھی مخصوص نشستیں مانگیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اتنی زیادہ تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ہوں، 3 دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد 99 فیصد امیدوار کامیاب ہوگئے، کیا خیبرپختونخوا میں مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہئیں یا نہیں، کیا مخصوص نشستیں صرف 1 فیصد سیٹ جیتنے والی پارٹیوں میں تقسیم کی جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل نے تو الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا ، پاکستان میں 100 سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں ، کل کو ہر کوئی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑے گا، کامیاب ہونے کے بعد پھر وہ بھی مخصوص نشستیں مانگیں گے، مخصوص نشستیں کیوں دوسری جماعتوں کو نہ دی جائیں ۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس نے جتنی سیٹیں جیتیں، ان کو اس تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی سیٹیں بڑھا دی جائیں، جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہوگی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں آزاد امیدواروں کو نہیں، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے تو خود بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا،آپ نے ایک ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی جس کے پاس ایک سیٹ بھی نہیں، مخصوص نشستیں کیوں دوسری جماعتوں کو نہ دی جائیں ۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بھی دلائل مکمل کرلیے ، گزشتہ روز الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور دیگر پارٹیوں کے وکلاء کے دلائل مکمل کئے تھے۔
وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت نے متفقہ طور پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست مسترد کردی۔
یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے حکم میں 13 مارچ تک توسیع کردی ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے 20 مخصوص نشستیں اور تین اقلیتی نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے سے انکار کردیا تھا، پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی تمام بقیہ مخصوص نشستوں اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں پر لاگو ہوا۔