از : سہیل شہریار
صدر رجب طیب اردوان کو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بلا شرکت غیرے ترکیہ کے مقبول ترین لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور انکے مخالفین کی نیندیں اڑانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ آج بھی اپنی مقبولیت کو قائم رکھے ہوئے ہیںحتیٰ کہ پوری اپوزیشن اور انکے مغربی آقا اکٹھے ہوکر بھی انہیں شکست سے دووچار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اور اب وہ تیسری مدت کے لئے ترکیہ کے صدر منتخب ہو چکے ہیں
آج ہم اسی عہد ساز شخصیت کے سیاسی کیریئر کے چند سنگ میل پیش کرنے جا رہے ہیں جنہوں نے دو دہائیوں کے دوران ترکیہ کو فکری، معاشی اور معاشرتی اعتبارسے بدل کر رکھ دیا ہے ۔اور ملک کے روایتی طور پر سیکولر معاشرے کو اپنے وژن سے اسلام کی جانب واپس لاتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اور سفارتی طاقت کے طور پرمنوایا ہے۔
جنوری 1976: رجب طیب اردوان نے طلبہ سیاست کا حصہ بنتے ہوئے نیشنل ٹرکش سٹوڈنٹ یونین کی رکنیت حاصل کی اور صرف دو سال میںہی تنظیم کے استنبول کے صدر بن گئے۔
مئی 1984: اردوان نے عملی سیاست کا آغاز کیا۔اور علی ترکمان اور نجم الدین اربکان کی جانب سے ایک سال قبل بنائی گئی رفاہ پارٹی کا حصہ بنے اور 1988میںپارٹی کے استنبول صوبہ کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
جون 1991:رجب طیب اردوان ضمنی الیکشن میں پہلی مرتبہ استنبول سے قومی اسمبلی کے رکن بنے مگر ترجیحی تقسیم کی بنا پر اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھا سکے۔
مارچ 1994: اردوان کو رفاہ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر استنبول کا میئر منتخب کیا گیا۔جہاں انہوںنے ملک کے سب سے بڑے شہر کےفراہمی و نکاسی آب ، صفائی اور ٹرانسپورٹ کے دیرنہ مسائل کو حل کر کے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
اپریل 1998: اردوان نے میئر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جب عدالت نے انہیں 1997 میں پڑھی گئی ایک نظم پر مذہبی امتیاز پر اکسانے کے جرم میں جیل کی سزا سنائی جس میں مساجد کو بیرکوں سے، میناروں کا سنگین سے اورنمازیوں کا فوج سے موازنہ کیا گیا تھا۔ وہ مارچ 1999 سے جولائی 1999 تک جیل میں رہے۔جیل کے قیام کے دوران ہی انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ۔اس سے متعلق تیاریوں کو حتمی شکل دی۔
اگست 2001: اردوان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، یا اے کے پارٹی قائم کی، اور چیئرپرسن منتخب ہوئے۔
نومبر 2002: اے کے پارٹی نے 1970 کی دہائی کے بعد بدترین معاشی بحران کے بعد ماضی کی بدانتظامی اور کساد بازاری کو توڑنے کے وعدے پر تقریباً 35فیصدووٹوں کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔اردوان کو اس سے قبل سزا سنائے جانے کی وجہ سے قانونی طور پر وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے سے روک دیا گیا ہے -تاہم اس فیصلے کو دسمبر میں ختم کر دیا گیا ۔
مئی 2003: اردوان پہلی بار وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے مضبوط معاشی نمو،بنیادی ڈھانچے میں تیزی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے باعث لوگوں کے معیار زندگی میں اضافہ کیا۔ اردوان نے اپنی خارجہ پالیسی کو فروغ دینے اور یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے ترکی کی کاوشوں کو آگے بڑھانےکی غرض سے مغربی دارالحکومتوں کا دورہ کرتے ہیں۔
اکتوبر 2007: اردوان کی اے کے پارٹی کی ایما ا پرایک ریفرنڈم میں، ترکوں نے صدر کو جس کا کردار اس سے قبل بڑی حد تک علامتی تھا۔ عوامی ووٹ سے منتخب کرنے کی اجازت دینے کے لیے آئینی تبدیلیوں کی منظوری دی۔
فروری 2008: پارلیمنٹ نے اے کے پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی طرف سے تیار کردہ ایک ترمیم منظور کی جس کے تحت یونیورسٹی کیمپس میں سر پر اسکارف پہننے پر پابندی ہٹا دی گئی۔
مارچ 2008: آئینی عدالت مذہب اور ریاست کی علیحدگی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کرتی ہے، اور AK پارٹی کو ختم کرنے اور اردوان اور پارٹی کے دیگر درجنوں ارکان پر پانچ سال کے لیے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کا سخت حکم سناتی ہے۔
ستمبر 2010: ایک اور ریفرنڈم میں، ترکوں نے اردوان کی جانب سے عدالتی اور اقتصادی ترامیم کی منظوری دی جن کا مقصد آئین کو یورپی یونین کے معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔تاہم ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی کوششیں قبرص کے منقسم جزیرے سمیت دیگر مسائل کی بنا پر بارآور نہ ہو سکیں۔
مئی 2013: اردوان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مظاہرے شروع ہوئے تاہم حکومت نے دہشت گرد گروپوں کے حامیوں کے ذریعہ ملک گیر فسادات میں لائی جانے والی تیزی پر بتدریج قابو پا لیا اور اردوان نے اسلامی اانتہا پسند فتح اللہ گولن کے ساتھ اشترک عمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔جس کا نتیجہ بعدا زاں 2016کی ناکام بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔
اگست 2014: مسلسل تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اے کے پارٹی کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے وزیر اعظم کے طور پر چوتھی مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے روکےجانے کے بعد اردوان نے اگست میں ترکی کے پہلےعوامی ووٹ سے ہونے والے صدارتی چناؤ میں کامیابی حاصل کی اور ریاست کے سربراہ کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے ایک نئے آئین کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔
جون 2015: پہلی بار اے کے پارٹی انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکی۔جبکہ سیاسی پارٹیوںکے اتحاد بنانے میں ناکام ہونے کے بعد، نومبر کےفوری انتخابات میں اسے دوبارہ اکثریت حاصل ہوگئی۔
جولائی 2016: فوجی کمانڈر ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروںکی مدد سے ریاستی عمارتوں اور پارلیمنٹ پر حملہ کرتے ہیں۔مگر صدر اردوان کے تاریخی بیانات کے نتیجے میں قوم کےسڑکوں پر آنے کے بعد بے مثال عوامی مزاحمت کے ذریعے بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا جاتا ہے۔اسی دوران خود پر ہونے والے گولنسٹ تنظیم فیٹو کے قاتلانہ حملے میں اردوان بال با ل بچتے ہیں۔ جسکے بعد ترکیہ میں فیٹو اور اس کے حامیوں کی صفائی کی بڑی مہم چلائی جاتی ہےاور گولنسٹ نیٹ ورک کو توڑتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں
اگست 2016: اردوان نے شام میںپی کے کے اور اسکے شامی دھڑے وائی پی جی اور داعش کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک بڑی فوجی کارروائی کی اجازت دی، جو سرحد پار سے ترکیہ میں ہونے والی چار بڑی دہشتگرد کارروائیوں میںملوث تھے۔
اپریل 2017: ایک ریفرنڈم نے ایگزیکٹو صدارتی نظام کی منظوری دی۔ اردوان نے ان تبدیلیوں کے لیےبھرپور مہم چلائی تھی ۔ جس کے نتیجے میں صدر کو اامریکہ اور روس کے صدور کی طرح ایگزیکٹو اختیارات حاصل ہو گئے۔
جون 2018: اردوان نے ریفرنڈم کے بعد پہلے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اے کے پارٹی اور اس کی اتحادی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کو پارلیمانی اکثریت حاصل ہوئی۔
فروری 2020: شام کے ادلب کے علاقے میں فضائی حملوں میں درجنوں ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ترکیہ اور روس تصادم کے دہانے پر پہنچ گئے۔تاہم اردوان نے بہترین سفارتکاری سے معاملے کو سنبھال لیا۔
دسمبر 2020: امریکہ نے ترکیہ اور اس کی دفاعی صنعت پر انقرہ کی طرف سے روسی S-400 فضائی دفاعی نظام کی خریداری کے بعد پابندیاں عائد کر دیں۔ اور ترکیہ کو ایف 35پروگرام سے الگ کر دیا ۔ جس نےدونوں ملکوں کےتعلقات کو ایک نئی نچلی سطح پر دھکیل دیا۔
جولائی 2022: ترکیہ کی ثالثی، اقوام متحدہ کے ساتھ، روس کے حملے کے پانچ ماہ بعد، یوکرین کی اناج کی برآمدات کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینے والے معاہدے کو یقینی بنانے میں مدد کرتی ہے۔ اس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ تعلقات کی بدولت اردوان کا کردار اہم تھا۔
فروری 2023: ترکیہ کو اپنی جدید تاریخ کے سب سے مہلک زلزلے کا سامنا کرنا پڑا جس میں جنوب مشرق میں 50,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ حکومت اور صدر اردوان کو سست ردعمل پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر انہوں نے قوم سے معافی مانگی اور حکومت نے معاملات کو تیزی سے سنبھال لیا۔
مئی 2023: ترکیہ کے صدارتی و پارلیمانی انتخابات میں صدر اردوان کی اے کے پارٹی کی قیادت میں عوامی اتحاد نے پارلیمانی الیکشن جیت کر گرینڈ نیشنل اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ جبکہ صدارتی الیکشن دوسرے مرحلے میں اردوان نے کلچدار اولو کو گذشتہ روز ہونے والی ووٹنگ میں 48کے مقابلے میں 52فیصد ووٹ لیکر شکست سے دو چار کیا ہے اور مسلسل تیسری مرتبہ ترکیہ کا صدر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کر لیا ہے۔