الیاس مجید شیخ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شعور کی ابتدائی منزلیں طے کر رہا تھا۔ ہمارے والد ہر حساس موقع پر ہماری رہنمائی کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے یہی سیکھا تھا کہ خوشی غمی کے مواقع پر کبھی یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ خوشی ہو تو لوگوں کی خوشیوں میں شامل ہوا جاتا ہے اور خدا ناخواستہ کوئی افسوس ناک واقع ہو جائے تو متعلقہ خاندان کے غم میں شریک ہوا جاتا ہے۔
ایک بار والد صاحب کے قدرے دور پار کے رشتے دار کا انتقال ہو گیا۔ ان دنوں موبائل کی سہولت موجود نہ تھی۔ کچھ تو خبر دیر سے ملی اور بہاول نگر پہنچنے میں کم از کم چھ گھنٹے درکار تھے۔ جنازے میں شرکت ممکن نہ تھی۔ پھر بھی والد صاحب نے خبر ملتے ہی روانگی کا فیصلہ کیا۔ میرے اصرار پر کہ جنازے میں شمولیت تو ممکن نہیں پھر اس ہنگامی حالت میں جانا کیا ضروری ہے؟ انھوں نے فرمایا:
"دیکھو بیٹا! اگر کبھی کسی کی خوشی میں شمولیت رہ بھی جائے تو در گزر ممکن ہے لیکن کبھی کسی کی غمی پر اسے اکیلا مت چھوڑنا۔ میں جانتا ہوں کہ ہم جنازے میں شامل نہیں ہو پائیں گے لیکن ہماری وہاں موجودگی مغموم خاندان کا حوصلہ بڑھائے گی اور کم از کم ہم ان کے ان نازک لمحات میں ان کے ساتھ کھڑے تو ہوں گے!”
وہ دن اور آج کا دن؛ خدا جھوٹ نہ بلوائے، کبھی کسی کی خوشی میں پہنچنا ممکن ہو نہ ہو، کبھی غمی کے موقع پر سستی نہیں دکھائی۔
لیکن مدینہ کی ریاست کا خواب دیکھنے کے نام نہاد جہادیوں نے تو نئی رِیت ہی ڈال دی ہے۔ آٹھ مارچ کی ہنگامہ آرائی میں معصوم نوجوان بلال، المعروف ظلِ شاہ کی ناگہانی ہلاکت پر بھی وہی ہوا جس کی ہدایت خان صاحب کی روحانی پیشوا نے شاید انھیں دے رکھی ہے۔
ہلاکت کی حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تو مل ہی جائے گا لیکن کیا میرے قارئین کوئی ایسی ایک مثال بھی تلاش کر سکتے ہیں کہ جس کے ہاں وفات ہوئی ہو اسی کو کہا جائے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیے تاکہ میں اپنے گھر بیٹھاآپ سے تعزیت کر سکوں۔ میں گھر بیٹھے آپ کے غم میں برابر کا شریک ہونا چاہتا ہوں۔ ظلِ شاہ کی زمان پارک آمد، خان صاحب کی رعونت، غریب والد سے فاصلاتی نشست اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کا منظر آپ سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ خان صاحب کے قریبی دوست اور پی ٹی آئی کے ابتدائی دور کے رکن، نعیم الحق مرحوم کی وفات ہو یا گوجرانوالا میں ہلاک ہونے والے کار کن کی ہلاکت، لاہور میں نوجوان صحافی صدف کی موت ہو یا ہزارا کمیونٹی کی شہادتوں اور ان کے احتجاج کا موقع؛ معلوم ہوتا ہے، خان صاحب کی نہ صرف جنازوں میں شرکت پر بندش ہے بلکہ ان کے لیے موت والے گھر میں قدم رکھنا بھی ممنوع ہے۔ ویسے تو ہم نے موصوف کے دورِ حکومت میں بھی انھیں کبھی عید پر بھی با جماعت نمازپڑھتے نہیں دیکھا، شاید اس میں بھی کوئی امر مانع ہے۔ لیکن پھر وہی بات کہ کم از کم کسی کے غم میں شریک ہونا تو سیکھ لیتے!
دنیا کی تاریخ رعونت پسندوں اور انا پرستوں سے بھری ہوئی ہے۔ خود کو خدا سمجھنے والے لاتعداد بادشاہ آئے اور گزر گئے۔ غرور اور تکبر کے مارے ہوئے ان فستائیوں سے لے کر عام آدمی تک، جتنا ممکن تھا میں نے تلاش کر ڈالا۔ اسے میری کم علمی سے تعبیر کیا جائے یا کج فہمی سے۔ مجھے کوئی ایسی مثال دستیاب نہیں ہو سکی کہ مرحوم کے لواحقین کو گھر بلا کر تعزیت کی جائے۔ مغموم خاندان سامنے بیٹھا ہو اور آپ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ثابت کریں کہ آپ سے زیادہ تو شاید اس غریب باپ کو بھی بیٹے کی موت کا افسوس نہ ہو گا۔
معصوم ظلِ شاہ خان صاحب کے عشق میں مبتلا نادان تھا۔ وہ صرف ایک بار ان سے ملاقات کا خواہش مند تھا۔ لیکن اسی خواہش میں اسے موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس الم ناک واقعے سے مجھے اس بات کا احساس ایک بار پھر شدت سے ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اپنی جگہ، کسی رہنما سے محبت کو سلام؛ لیکن اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ جان سے گزر جائیں۔ اور پھر وہ جماعت اور لیڈر جو خود تو چار دیواری سے باہر قدم نہیں رکھتا، عدالتوں کا سامنا نہیں کرتا، کسی کو اپنے برابر جگہ دینے کو تیار نہیں؛ آپ اس کے لیے جان سے گزر جائیں! خدا اس نوجوان کی مغفرت کرے۔
آج سے کوئی تیس برس پہلے کی بات ہے، اتفاقاً ان دنوں شوکت خانم ہسپتال میرا کلائنٹ تھا۔ فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں نصرت فتح علی خاں مرحوم کا پروگرام تھا۔ ان دنوں خان صاحب نے سیاست میں قدم نہ رکھا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا! ‘ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات’ (اگرچہ یہ کہاوت خان صاحب پر تو صادق نہیں آتی) لیکن کہنا یہ مطلوب ہے کہ اصلیت پہلے روز سے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ سو، یہ غرور، یہ رعونت آج کی نہیں۔ نصرت مرحوم کے پروگرام میں ہم ایک قطار میں بیٹھے تھے لیکن خان صاحب کی کرسی دو کرسیاں چھوڑ کر لگی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے خود کو دوسروں سے الگ اور بالا تر سمجھتے ہیں۔
آج کل زمان پارک سے گزرتے ہوئے میں ہمیشہ یہی سوچتا ہوں کہ ان معصوم شہریوں اور نادان عاشقوں کا کیا قصور ہے جو موسمی شدت اور ہر لمحے کے خوف کو بالائے تاک رکھتے ہوئے اس شخص کی حفاظت کے لیے خدائی فوج دار بنے بیٹھے ہیں جسے ان کی مشکلات کا کوئی خیال ہے نہ ان کی زندگیوں کا۔ خان صاحب شاید پہلے انقلابی ہیں جو عوام کی ڈھال بننے کے بجائے انھیں اپنی ڈھال بنائے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے یہ تماشا جاری ہے۔ اگر من مرضی کا انقلابی بننا مقصود ہے تو کبھی اپنے بچوں کو بھی زمان پارک میں بلائیے۔ کبھی انھیں بھی سڑکوں پر سلا کر اپنی حفاظت پر مامور کیجیے۔ کبھی انھیں بھی احتجاج پر اکسایے۔ کبھی انھیں بھی حادثات سے دو چار ہونا سکھایے۔ کبھی انھیں بھی پاکستانی نوجوانوں کا حصہ بنائیے۔ کبھی انھیں بھی انقلاب کا درس دیجیے۔
اور اگر یہ سب یا اس میں سے کچھ بھی ممکن نہیں تو خدارا اس قوم پر ترس کھائیے۔ نوجوان نسل کو گاجر مولی کی طرح کٹ مرنے پر مت اکسایے۔ قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے نوجوانوں کو قانون کے احترام کا درس دیجیے۔ وڈیو لنک پر کھوکھلی نصیحتوں کا سلسلہ ختم کیجیے۔ باہر نکل کر عدالتوں کا سامنا کیجیے اور یہ تماشا بند کیجیے۔