سلام آباد(پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر کمیشن کا کام روک دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز عامر فاروق اور نعیم افغان کمیشن کا حصہ ہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور انہیں گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کےقواعد کے مطابق فریقوں کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، کمیشن کو حکم نامے کی کاپی فراہم کی جائے، سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا ہے؟ تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، کمیشن معاملے میں فریق تھا، اسے نوٹس کیوں نہیں کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے ؟ آپ کو نوٹس کیا گیا تھا یا ویسے ہی بیٹھے تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر سیدھا ریفرنس جائے تو وہ پوری زندگی بھگتتا رہے گا۔
اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا، ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کے دوسرے فریق نےکہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور ہیں، کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں، عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آ کر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی۔
اٹارنی جنرل نے حلف پڑھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پربیٹھ کر وکلاء پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں، رولز کے مطابق وکیل اپنے مقدمے سے متعلق میڈیا پر بات نہیں کر سکتا، کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلاء کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکرکرتے ہوئے جذباتی ہو گئے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائے گا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہو گیا ہے، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے کہ اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ ٹوئٹر اور ٹوئٹر ہینڈل کیا ہوتا ہے ؟ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں، ہوسکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں، ہوسکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو، تحقیقات ہونگی تو یہ سب پتا چل سکے گا، جج کو پیسے دینے کی بات ہورہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آجاتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے، ابھی وہ سٹیج ہی نہیں آئی تھی ، نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا تو کام سے کیسے روک دیا، ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے، ہم آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔