اسلم اعوان
سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں حکمراں پیپلزپارٹی کی کامیابی نے کراچی کے شہری ماحول میں پنپتی ہوئی پی ٹی آئی اور اندرون سندھ کے دیہی افق پہ ابھرتی جے یو آئی کے سیاسی مستقبل کو تاریک بنا کر صوبہ سندھ میں متوقع تبدیلیوں کی راہ روک لی اور اَب اِسی تغیر کے غیرمعمولی اثرات سیاست کے مرکزی دھارے کے علاوہ جنوبی پنجاب،بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے سیاسی منظرنامہ کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔البتہ تمام تر پیچیدگیوں کے الرغم کراچی،حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں جماعت اسلامی کی سیاسی کارکردگی کافی بہتر رہی،اگر جماعتی قیادت نے اپنی سیاسی جدوجہد کے مومنٹم کو اِسی طرح برقرار رکھا تو جماعت اسلامی 2023 کے عام انتخابات میں شہری سندھ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں ضرور جیت لے گی،تاہم خلاف توقع اندورن سندھ میں عبرتناک انتخابی شکست نے جے یو آئی کی پارٹی پالیٹیکس سمیت سیاسی بارگینگ کی پوزیشن کو بھی کمزور کر دیا،حیرت انگیز طور پہ بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی،دوسری بڑی، پشتون آبادی کی نمائندگی کی دعویدار اے این پی کا وجود کہیں نظر نہیں آیا،بظاہر یہ پیپلزپارٹی کی اُس پالیسی کا شاخسانہ نظر آتا ہے،جس میں صوبائی گورنمنٹ نے شہری اور دیہی سندھ سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کی جارحانہ حکمت عملی اپنا کر پشتون قوم پرستی کی تیزی سے ابھرتی ہوئی تحریکوںکو پس منظر میں دھکیل دیا۔اگر ہم موجودہ سیاسی پیش رفت کو پچھلے آٹھ ماہ کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت کا فائدہ صرف پیپلزپارٹی اور سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کے حصہ میں آیا،اِسی طرح جُزوی اقتدار کی آسودگی نے خیبر پختون خوا میں جمیعت کو آگے بڑھنے کے کچھ مواقع ضرور فراہم کئے لیکن ادھورے اقتدار نے سندھ اور بلوچستان میں جے یو آئی کی طاقت کو ناقابل تلافی ضعف پہنچایا،جس کی ایک جھلک ہمیں سندھ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھائی دیتی ہے۔اِسی جزوی حکمرانی کی روشنی نظر آتے ہی اندورن سندھ میں جواں سال راشد سومرو کی مزاحمتی سیاست سے وابستہ غیریب عوام کی امیدیں چمک اٹھیں لیکن توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی سندھ کی پارٹی قیادت افسردہ اور جمعیت کے حامیوں کے دل و دماغ پہ مایوسی کی تاریکی چھاتی گئی،اس وقت جمعیت کے چاروں وفاقی وزراءکی سندھ میں اپنی جماعتی قیادت سے کہیں زیادہ بہتر کوارڈینشن سید خورشید شاہ کے ساتھ ہے،جس کا براہ راست فائدہ پیپلزپارٹی کے وابستگان کو مل رہا ہے چنانچہ کراچی کے علاوہ جے یو آئی کی اندورن سندھ کی قیادت نے مصلحت آمیز خاموشی کی بکل مار لی ہے،جس کے تباہ کن مضمرات عام انتخابات میں ابھر کر سامنے آنے والے ہیں۔علی ہذالقیاس،مرکز میں پی ڈی ایم کی حکمرانی کا چہرہ بنکر سامنے آنے والی نوازلیگ کی کشتی بھی بھنور میں ہچکولے کھاتی نظرآتی ہے،ہمارے ملک کے روایتی نظام کا ہمہ جہت جمود اوراعصاب شکن اقتصادی مشکلات نے پنجاب کی مقبول پارٹی کو فنا و بقاءکے خط امتیاز پہ لا کھڑا کیا،نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق اگر وہ پیچھے ہٹے تو مملکت ڈوب جائے گی،جس کا سارا دوش نواز لیگ کے گلے کا طوق بنے گا،اسی ڈھلون کی طرف اگر وہ آگے بڑھتے رہے تو پارٹی کا مستقبل مخدوش ہوتا جائے گا۔اس حوالہ سے عمران خان ٹھیک کہتے ہیں،معاشی و سیاسی بحران کے اِس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ تازہ مینڈیٹ کے حصول سے نکلے گا۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ بدترین معاشی بحران کے پنجوں میں تڑپنے کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں 35 سے زیادہ وزیروں،30 کے لگ بھگ وزراءمملکت اور اتنے ہی مشیروں کی فوج ظفرموج کمزور معشت کی پہلے سے ڈولتی کشتی پہ ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے،موجود حکمرانوں سے گورننس کا انحطاط رک سکا نہ کرپشن کے رجحان میں کوئی کمی لائی جا سکی،ابھی چند دن قبل پارٹی قیادت کے اعلی سطحی اجلاس میں گورننس کی ناکامیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی پنجاب میں بتدریج کم ہوتی مقبولیت پہ گہری تشویش ظاہر کی گئی،نواز لیگ کی صف اول کی قیادت نے،میاں نوازشریف کو فوری طور پہ وطن واپس بلانے اور جلد از جلد عام انتخابات کی طرف جانے پہ اتفاق کیا گیا مگر لندن میں بیٹھے سپریم لیڈر اور چیف آرگنائزر مریم نواز کا انداز فکر ایک نئے سیاسی تصادم کی منصوبہ بندی کے محور میں گھوم رہا ہے،جس کے نتائج کسی کےلئے بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔متذکرہ اجلاس میں پارٹی لیڈرشپ کو بتایا گیا کہ عام انتخابات پہ چھ ارب روپے خرچ اٹھے گا لیکن موجودہ بندوبست کو اگر آٹھ ماہ مزید طول دیا گیا تو اس پر بارہ ارب سے زیادہ وسائل صرف ہونے کے علاوہ اتنی ہی…