ترک پارلیمنٹ چھٹیوں کے بعد نئے جمہوری آئین پر کام شروع کرے گی، اردوان

انقرہ (پاک ترک نیوز)
ترکیہ کو بغاوت کے دور کے اآئین سے مکمل طور پر آزاد کرانے کے لئے ترک پارلیمنٹ اکتوبر میں موسم گرما کی چھٹیوں سے واپسی پر نئے آئین پر کام شروع کر دے گی۔
اس بات کا اعلان کابینہ کے اجلاس کے بعد صدر رجب طیب اردوان نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نےکہا کہ ہم ترکیہ کو بغاوت کے دور کے آئین سے مکمل طور پر آزاد کرائیں گے اور جب ہماری پارلیمنٹ دوبارہ کھلے گی تو ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا شہری آئین بنانے کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کریں گے جو ہماری جمہوریت کے لیے موزوں ہو۔
موجودہ آئین میںمجوزہ تبدیلیوں میں آزادی، تحفظ کا حق، منصفانہ ٹرائل کا حق، تقریر کی آزادی کے ساتھ ساتھ خواتین اور معذوروں کے حقوق کے موضوعات پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ منصوبہ انسانی حقوق کے متعدد گروپوں کے تعاون سے انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی میکانزم کے مشاہدات اور رپورٹوں کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔
منصوبے کے کچھ دوسرے اصول انسانی وقار ہیں، قانون کے فعال تحفظ کے تحت، تمام حقوق کے جوہر کے طور پر؛ ہر ایک کے لیے عوامی خدمات کی مساوی، غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ فراہمی؛ حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے طور پر تمام شعبوں میں قانون کی حکمرانی کو مضبوطکرنا شامل ہے۔
صدر اردوان نے یہ بھی کہا کہ ترکیہ شام کی علاقائی سالمیت کے آبادیاتی حقائق کی بنیاد پر حل کے لیے کوشاں ہے۔ اور اس ضمن میں بااثر علاقائی اداکاروں کو بھی اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔صدر نے نوٹ کیا کہ اسد حکومت کے لیے زمینی حقائق کے مطابق کام کرنا اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا بہت ضروری ہے جو ترکیہ کے ساتھ جاری معمول کے عمل میں رکاوٹ بنے۔
انہوں نے عراق اور شام میں امریکہ اور دیگر ملکوں کی جانب سے پی کے کےدہشت گرد گروپ کی شاخوں کی حمایت پر بھی تنقید کی۔اردوان نے کہا کہ دہشت گرد گروہ کو دیا جانے والا ہر ہتھیار خطے میں مسلسل خون بہاتا ہے اور عراق اور شام کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یاد رہے کہ 1982 سے موجودہ آئین جو ایک فوجی بغاوت کے بعد تیار کیا گیا تھا میں کئی ترامیم دیکھی گئی ہیں۔ 1980 کی خونریز بغاوت جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مقدمات، تشدد اور پھانسیاں بھی دی گئیں، ترکی کی سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ دور کی نمائندگی کرتاہے۔

#ANKARA#pakturknes#PakTurkNews#pakturknwes#parliment#RecepTayyipErdoğan#turkparliment