لندن (پاک ترک نیوز ) برطانیہ میں کل عام انتخابات ہوں گے ۔تمام پارٹیاں اپنی اپنی جیت کیلئے پرعزم ہیں ۔
حکومت کے انتخاب کے لیے لاکھوں ووٹرز 4 جولائی کو ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں، ووٹر مختلف حلقوں اور علاقوں سے ساڑھے چھ سو قانون سازوں کو منتخب کریں گے اور اس پارٹی جس کے قانون سازوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی، اس کے سربراہ ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں ایک حکومت کی سیاسی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے اور چونکہ کنزرویٹو پارٹی نے دسمبر 2019 میں آخری الیکشن جیتا تھا اس لیے اگلے عام انتخابات قانون کے مطابق جنوری 2025 تک ہونے تھے تاہم برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات چار جولائی کو ہوں گے۔
قبل از وقت ہونے والے ان انتخابات کے لیے پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح 7 سے رات 10 بجے تک ہوگی۔
اس وقت برطانیہ میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور امیدواروں کی ڈور ٹو ڈور مہم کے ساتھ کارنر میٹنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے، عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے جبکہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی پارٹی کا منشور گھر گھر پہنچانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم رشی سونک کی کنزرویٹو پارٹی اپوزیشن کی بڑی جماعت، بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے اعتدال پسند لیبر پارٹی سے شکست کھا جائے گی، کنزور ویٹو پارٹی پانچ مختلف وزرائے اعظم کی قیادت میں 14 برس اقتدار میں رہ چکی ہے۔
واضح رہے کہ کنزرویٹوز اور لیبر روایتی طور پر برطانیہ کے انتخابی نظام کے تحت برطانوی سیاست پر غلبہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی جماعتوں کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہاں ہم انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی قیادت کون کر رہا ہے اور وہ اس بار کس ایجنڈے کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری ہیں۔
کنزرویٹوز کے رہنما وزیر اعظم رشی سونک جو اکتوبر 2022 میں اس وقت اقتدار میں آئے جب انہیں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور لز ٹرس کی مختصر مدت کی وزارت عظمیٰ کے بعد خراب معیشت وراثت میں ملیں، اس پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں 365 نشستیں حاصل کی تھیں۔
رشی سونک آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ اور گولڈ مین سیکس ہیج فنڈ مینیجر، برطانیہ کے پہلے غیر سفید فام رہنما اور وزیر اعظم بننے والے پہلے ہندو ہیں۔
معیشت کو مستحکم کرنا اور ٹیکسوں میں سالانہ تقریباً 17 ارب پاؤنڈ کی کمی، صحت عامہ کے اخراجات کو افراط زر سے زیادہ کرنا اور 2030 تک دفاعی اخراجات کو مجموعی قومی پیداوار کے 2.5 فیصد تک بڑھانا۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے فنڈ ٹیکس چوری اور فلاحی اخراجات کم کرکے حاصل کیے جائیں گے، پارٹی نے تارکین وطن کی تعداد کو محدود کرنے اور سیاسی پناہ طلب کرنے والے کچھ لوگوں کو روانڈا بھیجنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
لیبر پارٹی کے رہنما61 سالہ کیئر سٹارمر ہیں ۔ برطانیہ اینڈ ویلز کے سابق چیف پراسیکیوٹر وکیل برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم بننے کے لیے پسندیدہ قرار دیئے جارہے ہیں۔
اعتدال پسند اورعملی کاموں پر یقین رکھنے والے سٹامر نے اپنی پارٹی کو سابق رہنما جیریمی کوربن کی زیادہ کھلی سوشلسٹ پالیسیوں سے دور رکھنے اور اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔
ان کے بارے میں ناقدین کہتے ہیں کہ وہ جوش وخروش خواہشات سے عاری ہیں لیکن ان کی قیادت میں لیبر پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، لیبر پارٹی نے گزشتہ الیکشن میں 202 نشستیں حاصل کی تھیں ۔
اس پارٹی نے عوام سے جو وعدے کیے ہیں ان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور بنیادی ڈھانچے کی 10 سالہ حکمت عملی کے تحت ریلوے جیسے برطانوی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا شامل ہے ، اسی طرح توانائی کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے ریاستی ملکیت والی صاف توانائی کی کمپنی قائم کرنا، جس کے لیے سرمایہ تیل اور گیس کی بڑی کمپنیوں کو غیر متوقع طور پر ہونے والے بڑے منافع پر ٹیکس سے ملے گا۔
سرکاری سکولوں میں ہزاروں نئے اساتذہ کو تنخواہ دینے کے لیے نجی سکولوں پر ٹیکس لگانا، علاج کے لیے انتظار کے وقت میں کمی لانا جو اس وقت ریکارڈ زیادہ ہے۔
ایڈ ڈیوی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کےرہنما ہیں ، 58 سالہ ڈیوی پہلی بار 1997 میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے، معاشیات کے سابق محقق رہنے والے ڈیوی نے 2012 سے 2015 تک کنزرویٹو-لبرل ڈیموکریٹ اتحاد کے تحت حکومت کے توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
وہ 2019 میں بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما بنے وہ عوام میں زیادہ شہرت نہیں رکھتے تھے اور موجودہ انتخابات میں اس کیلئے انہیں کافی تگ و دو کرنی پڑی ۔
جیسا کہ انہوں نے مختلف سٹنٹس کر کے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جن بنجی جمپنگ بھی شامل ہے، اس کارروائی کا مقصد میں ووٹروں کو ترغیب دینا تھا کہ وہ ’دلیرانہ قدم اٹھائیں، لبرل ڈیموکریٹس نے گزشتہ انتخابات میں 11 نشستیں جیتیں ۔
اس پارٹی کے ایجنڈے میں برطانیہ میں صحت اور سماجی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانا ، بشمول گھر پر نرسنگ کی مفت متعارف کروانا، قابل تجدید توانائی اور گھر کو گرم رکھنے کے منصوبے میں سرمایہ کاری، فضلہ دریا میں بہانے والی پانی کمپنیوں پر پابندیاں ، ووٹ ڈالنے کی عمر کم کرکے 16 سال کرنااور یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ میں شمولیت شامل ہیں ۔
60سالہ نائیجل فراج اس پارٹی کے رہنما ہیں ، فراج جو اپنی شعلہ بیانی سے سیاست میں ہلچل مچانے کا ہنر رکھتے ہیں ، انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر کے کنزرویٹو پارٹی کے لیے سنگین درد سر پیدا کر دیا ہے۔
بریگزٹ کے بڑے حامی، فراج امیگریشن میں کمی اور ’برطانوی اقدار‘ پر توجہ مرکوز کرنے کے اپنے وعدوں سے بہت سے مایوس کنزرویٹو ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں، فراج اس سے قبل سات بار پارلیمنٹ کا انتخاب لڑ چکے ہیں لیکن کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
گزشتہ انتخابات میں ان کی پارٹی کوئی نشست نہیں جیت سکی، اگرچہ اس سال ریفارم یو کے پہلے امیدوار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے جب کنزرویٹو پارٹی کے سابق نائب سربراہ لی اینڈرس پارٹی چھوڑ کر ریفارم یوکے میں شامل ہو گئے۔
ریفارم یو کے جن وعدوں پر انتخابی میدان میں اتری ہیں ان میں تمام ’غیر ضروری امیگریشن‘ کو منجمد کرنا اور غیر ملکی طلبہ کو ان زیر کفالت افراد کو اپنے ساتھ برطانیہ لانے سے روکنا اور انسانی حقوق سے متعلق یورپی کنونشن سے علیحدگی شامل ہے تاکہ سیاسی پناہ کے طلب گاروں کو انسانی حقوق کی عدالتوں کی مداخلت کے بغیر ملک بدر کیا جا سکے۔
سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کی قیادت جان سوینی کررہے ہیں ، 60 سالہ سوینی مئی میں صرف ایک سال میں ایس این پی کے تیسرے سربراہ بن گئے۔
سوینی طویل عرصے سے پارٹی میں ہیں ، وہ 15 سال کی عمر میں پارٹی میں شامل ہوئے اور اس سے قبل 2000 سے 2004 تک پارٹی کی قیادت کر چکے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں سکاٹش نیشنل پارٹی نے 48 نشستیں حاصل کی تھیں ۔
جان سوینی کہتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی سکاٹ لینڈ میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو وہ لندن میں قائم برطانوی حکومت کے ساتھ سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کریں گے، وہ یورپی یونین اور یورپی سنگل مارکیٹ میں دوبارہ شامل ہونا چاہتے ہیں۔
انہوں نے صحت عامہ کے لیے فنڈز بڑھانے، برطانیہ کے سکاٹ لینڈ میں جاری جوہری منصوبے کو ختم کرنے اور غزہ میں فوری فائر بندی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
گرین پارٹی کی قیادت کارلا ڈینیئر اور ایڈرین ریمزی کررہے ہیں ، 38 سالہ ڈینیئر پیشہ کے اعتبار سے مکینیکل انجینیئر ہیں، 2011 میں گرین پارٹی میں شمولیت سے قبل انہوں نے ہوا سے بجلی ہیدا کرنے کے منصوبے میں کام کیا۔
ڈینیئر جنوب مغربی برطانوی شہر برسٹل میں نو سال تک مقامی سطح کی سیاست میں حصہ لے چکی ہیں ، انہیں 2021 میں رامسے کے ساتھ گرین پارٹی کا شریک سربراہ منتخب کیا گیا، وہ بلدیاتی سیاست میں بھی سرگرم رہیں اور انہیں ماحول کے لیے سرگرم رفاہی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔
گرین پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں صرف ایک نشست حاصل کی ۔
اس پارٹی کے انتخابی ایجنڈے میں جوہری توانائی کو مرحلہ وار ختم کرنا اور ماحول کی تباہی کا سبب بننے والی گیسوں کا برطانیہ میں اخراج کا 2040 تک خاتمہ شامل ہے ۔
گرین پارٹی نے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ 24 ارب پاؤنڈ خرچ کرنے اور گرین اکانومی میں سالانہ 40 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، اس مقصد کے حصول کیلئے فنڈ کاربن ٹیکس، بہت زیادہ امیر لوگوں پر نیا ویلتھ ٹیکس اور زائد آمدنی والے لاکھوں افراد پر انکم ٹیکس بڑھا کر حاصل کیا جائے گا۔
برطانیہ میں ہونے والے قبل از وقت عام انتخابات میں ماہرین کے مطابق چار ملین سے زائد کی آبادی والے مسلم شہریوں کے ووٹ بھی اہم کردار ادا کریں گے، لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ زیادہ تر برٹش مسلم شہری کس پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔
برطانیہ کی مسلم برادری زیادہ تر لیبر پارٹی کی حمایت کرتی آئی ہے لیکن اس مرتبہ غزہ کی جنگ اور جنگ زدہ فلسطینی علاقے غزہ پٹی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر مسلم ووٹروں کا رجحان کچھ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
مئی اور جون میں کرائے گئے ایک آن لائن سروے کے مطابق برطانوی مسلمانوں میں لیبر پارٹی کی مقبولیت 80 فیصد سے کم ہوکر مبینہ طور پر 63 فیصد ہو گئی جبکہ 38 فیصد رائے دہندگان نے ایسے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا ارادی ظاہر کیا، جو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں اور فلسطینیوں کی حمایت کریں گے۔
تاہم مشرق وسطیٰ کے تنازع سے ہٹ کر دیگر مسائل پر لیبر پارٹی کی حمایت 63 فیصد، قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کی حمایت 12 فیصد، لبرل ڈیموکریٹس کی بھی 12 فیصد جبکہ گرین پارٹی کے لیے عوامی تائید سات فیصد دیکھی گئی۔
برطانوی سیاسی منظر نامے پر لیبر پارٹی بظاہر اپنی پوزیشن مضبوط بناتی ہوئی نظر آتی ہے، زیادہ تر سروے اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس الیکشن میں لیبر پارٹی کی فتح کے امکانات زیادہ ہیں تاہم دوسری طرف لیبر کی ایسی کئی سیٹیں بھی ہیں جہاں ایک دلچسپ سیاسی صورتحال جنم لے رہی ہے۔
رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق رشی سونک کی کنزرویٹو پارٹی اپنی بڑی مخالف جماعت لیبر پارٹی سے کہیں پیچھے ہے۔
ریفارم یو کے جو کہ امیگریشن مخالف دائیں بازو کی جماعت ہے، تیسرے نمبر پر ہے، لیکن ان کی حمایت پورے ملک میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے اور اس حمایت کو پارلیمنٹ کی نشستوں میں تبدیل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
لبرل ڈیموکریٹس، جو پہلے ملک کی تیسری سب سے بڑی پارٹی تھی، تسلسل سے اوسطاً تقریباً 10 فیصد حمایت لے رہی ہے، لیکن وہ پرامید ہے کہ مخصوص حلقوں پر توجہ مرکوز کرکے الیکشن میں فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے بعد، بادشاہ چارلس سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی کے قائد سے وزیراعظم بننے اور حکومت بنانے کے لیے کہیں گے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کا سربراہ اپوزیشن لیڈر بنتا ہے۔
اگر کوئی بھی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتی یعنی وہ صرف اپنے ارکان پارلیمان کی مدد سے قانون سازی نہیں کر سکتی تو نتیجہ معلق پارلیمنٹ ہے۔
اس وقت، ایوان میں سب سے بڑی جماعت کسی بھی قانون کو منظور کرنے کے لیے دوسری پارٹیوں کے ووٹوں پر انحصار کرتے ہوئے، کسی دوسری پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے یا اقلیتی حکومت کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔