لانگ مارچ:آخرہوا کیا تھا؟

تحریر:سلمان احمد لالی۔

 

پاکستان تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کامیاب ترین جلسوں کے بعد لانگ مارچ کا اعلان کیا تو توقعات کے برعکس بہت کم تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ پارٹی کے بہت سے ارکان اسمبلی اور عہدیداروں کی جانب سے انتہائی مایوس کن کارکردگی سامنے آئی۔ مارچ کی پلاننگ میں بہت سی خامیاں اور سقم نظر آئے۔ لگتا ایسا تھا کہ کوئی پلاننگ ہے ہیں نہیں ۔ لیکن پھر بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی اور انتہائی جر اتمندانہ انداز میں ریاستی طاقت اور جبر کا سامنا کی۔ رات تک اسلام آباد کی تمام بڑی شاہراہوں پر انسانوں کا سمندر موجود تھا۔ وہ اپنے قائد عمران خان کے منتظر تھے۔ ڈی چوک باقاعدہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا جہاں پے پناہ آنسو گیس کی شیلنگ سے سانس لینا دشوار ہوگیا تھا لیکن تحریک انصاف کے پرجوش کارکنان بار بار ڈی چوک پر نکل آتے اور آخر تک انہو ں نے اپنا مورچہ سنبھالے رکھا۔ لیکن لانگ مارچ جلد ختم کردیا گیا۔ اور جس طرح ختم کیا گیا اس اختتام نے نہ صرف سب کو حیران کردیا بلکہ انصافی کارکنان کیلئے انتہائی مایوسی کا باعث بھی بنا۔ افواہوں اور چہہ مگوئیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔
کہا گیا کہ کسی غیر ملکی شخصیت نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور عمران خان کو نئے انتخابات کی گارنٹی دی گئی ہے۔ ایک افواہ یہ بھی گردش کرتی رہی ہےکہ وزیر اعظم کی جانب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر کے پاس پہنچنے کے بعد ہی لانگ مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ لیکن پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر مبصرین ان تمام دعووں کو بے بنیا د قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ عمران خان کو اس شب کوئی گارنٹی نہیں دی گئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لانگ مارچ کے اگلے روز ہی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کردیا اور مارکیٹس نے اس فیصلے کو مثبت انداز میں لیا۔ ڈالر سستا ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی۔ گزشتہ روز عمران خان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہیں اسلا م آباد پہنچنے پر محسوس ہوا کہ اگر لانگ مارچ کو جاری رکھا گیا یا دھرنا دیا گیا تو خون خرابہ ہوگا۔ کیوں کہ پولیس کے مظالم دیکھ کر انکے ساتھ کے پی سے آنے والے لوگوں کا خون کھول اٹھا تھا۔ اسلیے انہوںنے حکومت کو الٹی میٹم دیتے ہوئے لانگ مارچ کو ختم کردیا۔
لیکن یہ تاثر عام ہےکہ کسی ان دیکھی قوت نے اپنا مثبت کردار ادا کیا تاکہ معاملات قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے۔اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے دیگر حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا نجی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے کہ اگر حکومت کو چلنے نہ دیا گیا تو معیشت کی بحالی کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا اور خاکم بدہن پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا نہ ہوجائے۔
میرے ذرائع کے مطابق حساس اداروں اور مقتدرہ کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا سارا کھیل غلط مفروضوں پر قائم تھا۔ حالات اس نہج تک پہنچ جائیں گے اسکی توقع کسی کو نہ تھی۔مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان روابط کا مکمل طور پر منقطع ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جیسے ہی لانگ مارچ کا اعلان ہوا ہر سمت میں محسوس کیا گیا کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب جارہے ہیں۔ انتہائی عجلت سے مقتدرہ کی جانب سے عمران خان کے ساتھ مواصلاتی روابط بحال کرنے کیلئے کوششیں شروع کی گئیں ۔
یہاں ایک اور افواہ یا مفروضہ بھی پڑھ لیجئے۔ اس روز مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان رابطہ کروانے میں ایک سابق چیف جسٹس ، ایک معروف بزنس مین اور ایک ریٹائرڈ جنرل نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ میںنہیں کہہ رہا ، پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی روزنامے کا دعویٰ ہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان کی ہٹ دھرمی کے پش نظر یہ کام آسان نہیں تھا۔ اس دعوے کے مطابق بدھ کی رات دیر گئے تک مذاکرات جاری رہے۔ عمران خان کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جون میں اسمبلیاں تحلیل اور انتخابات کی تاریخ دی جائے گی۔
سابق وزیرا عظم کو یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی وہ اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کے استعفے واپس لے کر قومی اسمبلی میں واپسی پر غورکریں تاکہ عبوری سیٹ اپ پر مشاورت ہو سکے۔
لیکن جمع کے روز سے یہ خدشات بہت بڑھ چکے ہیں کہ حکومت ایسی کسی بات پر رضامند نہیں ہوگی۔
ملک کی مقتدرہ کو گزشتہ کئی برس سے مختلف سیاسی حلقوں کیجانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ کبھی نواز شریف اور انکی صاحبزادی اور سیاست میں نو وارد مریم نواز اپنی توپوں کا رخ راولپنڈی کی جانب کرتی ہے اور حال ہی میں تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ فرق ایک ہی ہےکہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایسا کرنے سے احتراز پرتا جاتا ہے۔ لیکن عوام کی بڑی تعداد شدید بے چینی اور غصے کی حالت میں اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ صورتحال کی ذمہ دار قرار دیتی ہے۔سول ملٹری تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہےکہ وہ غیر جانبداری عمران خان کے کچھ اقدامات کے درعمل میں اپنائی گئی۔ اسے دائمی غیر جانبداری نہیں سمجھنا چاہیے۔
جبکہ با خبر زرائع بتاتے ہیں کہ مقتدرہ نے اصولی طور پر غیر جانبداری کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے اسکی حمایت سے قائم تحریک انصاف کی حکومت دھڑم سے گر گئی۔ لیکن یہ تاثر عوام میں پذیرائی نہ پا سکا اور غم و غصے میں شدید اضافہ ہوا۔
ملک کی مقتدرہ میں شامل بڑے بڑے عہدوں پر فائز بعض شخصیات عوام کے جذبات سے مکمل طور پر ناواقف یا اسے کم اہمیت دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک سے زیادہ سرویز کے مطابق عوام کا عمران خان کی حمایت میںنکلنا بنیادی طور پر پی ڈی ایم بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن کی واپسی کے درعمل میں ہے۔
ملک کے سیاستدان، مقتدرہ میں موجود اہم شخصیات، صحافی اور عوام میں معیشت کے بنیادی تصورات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ن لیگ نے انتہائی جاپکدستی سے یہ تاثر دیا کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہورہی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا۔ لیکن اس کی تفصیلات پھر کبھی۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More