تحریر:سلمان احمد لالی
یوکرین کے پاس گولہ بارود ختم ہو چکا ہےاور اس وقت یوکرینی افواج مغربی ہتھیاروں پر انحصار رہی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ جنگ زدہ ملک کے مسخرے (کامیڈین )صدر ولودیمیر زیلنسکی کا۔ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس کے بائب سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ یوکرین فرنٹ لائنز پر روس کے خلاف ہار رہا ہے ۔ روسی توپ خانہ یوکرینی بچی کچی سپاہ پر آگ برسا رہا ہے اور ایک بار پھر کیف حکا م نے مغرب سے بھاری ہتھیار مانگ لیے ہیں۔
لیکن یہاں مسئلہ صرف ہتھیاروں کا نہیں بلکہ گولہ بارود یعنی ایمونیشن کے ذخیرے کا ہے جو یوکرین تقریبا استعمال کر چکا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر 60سے 100کے دوران یوکرینی فوجی مغربی استعمارکی روس کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہورہے ہیں ، ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حکومت نے اسے ابھی تک خفیہ رکھا ہو اہے۔
جنگ کے شروع سے لے کر اب تک مغربی میڈیا یوکرینی فوج کے جھوٹی کامیابیوں کا ڈھول پیٹ رہاہے، اور لگتا ہےکہ اوائل میں ہی پالیسی ساز اپنے ہی پراپیگنڈے اور سی آئی اے کی جھوٹی تجزیاتی رپورٹوں کا شکار ہوگئے جن میں روسی فوج کے خلاف یوکرینی مزاحمت کی دیومالائی کہانیاں بیان کی گئیں تھیں۔ اور تو اور مغربی میڈیا نے خود ہی روسی فوج کے اہداف متعین کرکے انکے حصول میں ناکامی کا اعلان بھی کردیا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ مذاکرات جو زیلنسکی کی اپیل اورتر کی جیسے ممالک کی سفارتی کوششوں سے شروع کیے گئے انہیں امریکہ نے ثبوتاژ کردیا۔ کئی مرتبہ ایسا لگاکہ سمجھوتہ ہوا ہی چاہتا ہے اور جنگ بندی کا اعلان جلد متوقع ہے بالخصوص استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے بعدتو توقعات بڑھ گئیں تھیں لیکن جلد ہی کیے کرائے پر پانی پھیر دیا گیا اور عین مذاکرات کے بعد زیلنسکی کی زبان سے کی گئی زہر فشانی سے سب کو پتہ لگ گیا کہ واشنگٹن اپنا کھیل کھیل چکا ہے۔
مغربی میڈیا نے خود ہی اندازہ لگا لیا کہ روس کیف پر حملہ بھی کرنا چاہتا ہے اور مسخرے صدر کو مارکر کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کرنا چاہتا ہے لیکن روس کی جانب سے کبھی بھی یہ اہداف نہیں رکھے گئے۔ کیف میں حکومتی عمارات اور انفراسٹرکچر پر کبھی بھی حملہ نہیں کیا گیا۔ زیلنسکی کی لوکیشن کا روسیوں کو پتہ ہے لیکن کبھی اسے مزائل سے یا ہوائی حملے سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس نے بہت کامیابی سے یوکرین کے ملٹری انڈسٹریل ڈھانچے کو تباہ کرکے یوکرین کی عسکری قوت کو تھکا مارا ہے اور اسکے بعد وہ پسپا ہوکر ڈونباس کے علاقے میں مرتکز ہوچکا ہے۔ اگر روس کیف کی جانب پیش قدمی نہ کرتیں اور ڈونباس میں ہی مرتکز رہتیں تو یوکرین مغربی ہتھیاروں کا سہارا لے کر روس کو سخت مزاحمت دے سکتا تھا۔
ایسے میں ایک اور اہم محاذ پر روس کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔ وہ ہے معاشی محاذ، امریکہ ڈالر کے سر پر خدا ہی بن بیٹھا تھا۔ اس خدائی کے دعوے کو کریملن نے چکنا چور کردیا۔ بہت واویلا تھا کہ روس کے سوفٹ سے باہر نکال دینے، سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کردینے، اور ملک کا معاشی مقاطعہ کرنے سے عوام پیوٹن کے خلاف نکل کھڑی ہوگی۔ اگر روسیوں نے نیٹ فلکس نہ دیکھا، میکڈونلڈ کے برگر نہ کھائے تو وہ کریملن پر چڑھ دوڑیں گے۔ لیکن نہ تو عوام بھوکی مری اور نہ ہی کریملن پر چڑھ دوڑی بلکہ ولادیمیر پیوٹن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا کیوں کہ اس نے صدی کا بہترین دماغ ہونے کا ثبوت دیا ہے ، کیوں کہ اسنے کئی دہائیوں سے امریکہ کے شکنجے میں کسے ہوئے عالمی معاشی نظام کو شکست دی ۔ کیوں کہ اسنے روبل کی قدر میں حیران کن حد تک اضافہ کیا۔
پھر اگلا حربہ سامنے آیا، خبریں چلائی گئیں کہ پیوٹن کو کینسر ہے اور وہ زندگی سے مایوسی کی وجہ سے یوکرین جنگ جیسے اقدامات کررہا ہے۔ لیکن ان چالاک لومڑیوں سے کوئی پوچھے کے اس جنگ کی تیاری کا آغاز تووہ 2014میں ہی کرچکا تھا جب اس نے مغربی پابندیوں کو بے اثر کرنےکیلئے ڈالر پر انحصار کم کردیا تھا۔ جب اس نے سونے کی بڑی مقدار مرکزی بینک میں بطور اثاثہ شامل کرنا شروع کیا، جب اس نے سوفٹ کے بجائے متبادل ترسیلات زر کا نظام وضع کیا۔
بہرحال عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، گلف ممالک نے ایک طویل عرصے تک پیداوار بڑھا کر سپلائی پر بوجھ کم کرنے کے امریکی مطالبے کو نہیں مانا لیکن اب کسی حد تک پیداوار بڑھنے پر رضامندی ظاہر کردی گئی ہے جو کہ بائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے مشروط ہے۔
سب سے بڑھ کر دنیا امریکی مالیاتی نظام کے شیطانی چرخےسے جان چھڑانے کیلئے متفق ہونے لگی ہے۔ ڈالر کی دنیا بھر میں بالادستی اب کچھ ہی عرصے کی مہمان ہے اور جلد امریکی معیشت کے مصنوعی غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اسکے بعد امریکہ کے غلام دنیا بھر میں نئے آقاوں کی تلاش میں نکلیں گے لیکن میری پشین گوئی ہے کہ ان غلاموں کا انجام بہت عبرتناک ہو گا جو اب تک امریکہ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔
Twitter: @salmanlalipak
salmanlali87@gmail.com