تحریر: سہیل احمد شہریار
روس نے یوکرین پر بڑے حملے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔یا نہیں اور ایسا کوئی انتہائی اقدام اٹھائے جانے کا کتنا امکان ہے ۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر امریکی وفاقی ادارے ، سیکورٹی ایجنسیاں اور سیاسی رہنمائوں کے درمیان پھوٹ پڑگئی ہے۔اور ایک ہفتہ قبل کے بیانات سے اب امریکی ادارے اور رہنما انحراف کررہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے آغاز پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ روس بدھ 16فروری کو یوکرین پر بڑا حملہ کرنے جا رہا ہے ۔ اور اسی حوالے سے امریکی صدر نے اپنے یورپی دوستوں کے ساتھ بھی یہ معلومات شئیر کی تھیں۔ تبھی امریکہ سمیت مختلف یورپی ممالک اور جاپان کی جانب سے کیف میں اپنے سفارتی مشنوں کو محدود کرنے اور حسب ضرورت سفارت خانے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ یوکرینی فوج کی تربیت کے لئے وہاں موجود اپنے فوجی دستوں کی واپسی کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم ان تما رپورٹوں اور کاروائیوں پر اپنے ردعمل میں یوکرین کے صدر ولادیمیر یلنسکی نے انہیں گمراہ کن اور مغربی دوستوں کی جانب سے یوکرینی مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اعلانات اور اقدامات سے شدید مشکل حالات سے دوچار یوکرینی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مغربی دوستوںکی خواہش ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کردے۔ حالانکہ ہم سارے معاملے کو بات چیت کے ذریعے سفارتی حل کے خواہشمند ہیں۔اور ساتھ ہی انہوں نے یوکرین کے عوام کو ـ”گھبرانا نہیں ہے”کا پیغام دیتے ہوئے حالات کی خرابی کا اعتراف بھی کر لیاتھا۔
دریں اثنا پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کے کیف میں سفارتخانوں نے وہاں زیر تعلیم اپنے طلبا اور شہریوں کو اطمینان سے اپنے معمولات کو جا ری رکھنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے یہ بھی آگا ہ کر دیا تھا کہ بوقت ضرورت انکے انخلا کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ شہری بھی اپنے طور پر کسی ناگفتہ بہ صورت حال کے لئے تیار رہیں۔
اب نئے ہفتہ کے آغاز پر صورتحال میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے روس نے برملا کہا ہے کہ اسکا یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ کریملن کے ترجمان ڈمیٹری پریسکوف نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی چاہتے ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے ۔ ادھر روسی انٹیلی جنس چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی اتحادیوں کے ایما پر یوکرینی انٹیلی جنس سرحد پر چھیڑچھاڑ کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
دوسری جانب امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ بلینکن اور محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی انٹیلی جنس اور مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر روس کے یوکرین پر 16فروری کو بڑا حملہ کرنے کے بیان سے منحرف ہو گئے ہیں۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ کا کہنا ہے کہ روس یوکرین پر کب حملہ کرے گا اسی حتمی تارخ نہیں دی جا سکتی۔ جبکہ جان کربی نے اتوار کی شب میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ زیر گردش انٹیلی جنس رپورٹوں اوریوکرین پر متوقع روسی حملے کی کسی بھی تاریخ کی تصدیق نہیں کر سکتے ۔ البتہ یہ طے ہے کہ سرحد پر بڑی تعداد میں روسی فوج موجود ہے۔ اور انکی نقل و حرکت میں دن بدن تیزی آ رہی ہے۔
تیسری جانب یوکرین نے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کے لئے معاہدہ ویانا پر روس سمیت دستخط کرنے والے تمام مغربی ملکوں سے دو روز کے اندر اجلاس بلانے کی باضابطہ درخواست کر دی ہے ۔جسکی اطلاع یوکرین کے وزیر خارجہ دیمتری کولیبا نے اپنے ٹوئیٹر پیغام کے ذریعے میڈیا کو پہنچائی ہے۔اسی کے ساتھ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی میں بھی تیزی آ گئی ہے اور پچھلے 48گھنٹوں میں امریکہ ، برطانیہ اور لتھوینیا کی جانب سے ٹینک شکن میزائل اور بھاری مقدار میں دیگر گولہ وبارود کیف پہنچا دیا گیا ہے۔اندیشہ یہ ہے کہ ایسی تباہ کن صورتحال میں کسی چنگاری کے بڑی آگ کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔