تحریر:سلمان احمد
2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں واپس آئی تو کس نے سوچا تھا کہ ایسی جماعت جو اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی جیسے قدآور سیاستدانوں اور قومی سطح لیڈروں سے گجرات کے قصائی کہلائے جانے والے مودی اور انکے دستراست انہتائی متعصب امیت شاہ کے ہاتھ چلی جائے گی۔
اور پھر پورا ہندوستان تبدیلی کے ایک ایسے سلسلے سے گزرے گا جہاں موسیقی کی نئی قسم یعنی ہندوتوا پاپ تخلیق ہوگی۔ ذرا ایک گانے کے بول ملاحظہ فرمائیے،انسان نہیں ہو سالو، ہوتم قصائی، بہت ہوچکا ہندو مسلم بھائی بھائی۔ یہ ایک بھکت گیت ہے جو گلوکار پریم کرشنا ونشی نے گایا۔
اس طرح کے گانے اور پریم کشنا ونشی جیسے کئی گلوکار بھارت میں پنپنے والی ایک نئی ثقافت کی پتہ دے رہے ہیں۔ ان گانوں کو ہندوگروہوں کی طرف سے جلسے جلوسوں میں اونچی آواز میں لاوڈاسپیکر پر لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح کے گانے اور ایک انتہائی غلیظ گالی پر مشتمل نعرہ رام نومی تہوار کے دوران ہندو مسلم فسادات کا باعث بنا تھا۔
اس طرح کے درجنوں ویڈیوز یوٹیوب اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دیکھے اور سنے جاسکتےہیں۔ ان میں اکثر نفرت انگیز ، نسل کشی کی دھمکیوں کے پیغامات ہوتے ہیں۔
لیکن یہ صورتحال ایک دم تو نہیں پیدا ہوئی ۔ اس طرح کے جذبات کئی صدیوں بھارتی معاشرے کے لاشعور میں پنپ رہے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کانگریس کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو انکا مسلم لیگ پر بڑا الزام یہ تھاکہ لیگ طبقاتی سیاست کرنے کی مرتکب ہے۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح کو ہندوستان میں تقسیم اور پولرائزیشن کا موجب قراردیا گیا۔ کانگریس اور اسکے لیڈر روشن خیال ٹھہرے اور بہت سے مسلمان اس جھانسے میں آبھی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزادسے لے کر مولانا مودودی اور علمائے دیوبند کی بڑی تعداد نے پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ لیکن پاکستان اللہ کا امر تھا وہ بن کے رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اسی ملک خداد اد کے ٹکڑوں پر پلنے والے بہت سے افراد نے اپنی پوری بد دیانتی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی ایک غلطی تھا۔ 2014سے پہلے بہت سے گروہ بھارت میں جمہوریت اور سیکولرزم کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پاکستان میں کسی بھی خرابی کا ذکر چلتا تو بھارت کو ذکر بیچ میں لے آتے۔ برا ہو ان کانگریس والوں کا جنہو ں سیکیولرزم کا ڈھونگ رچا کر کتنی دہائیاں بر صغیر کے لوگوں کو دھوکہ دیا۔ یار لوگوں کا دل یہاں بیٹھ کر بھی وہاں جانے کو للچاتا رہتا۔ کئی صحافی اور غیر سرکاری تنظیموں کےارکان تو بھارت کے دورے بھی کر آتے اور اپنے ذہنوں کو مزید پراگندہ اور زہر آلود کرکے واپس لوٹتے اور پھر صبح شام اسی ملک کا کھاتے اور گالیاں بکتے۔
وہاں جانے والوں کو جو پاکستان میں سب سے بڑی برائی نظر آتی تھی وہ بادہ و جام پر علامتی پابندی تھی۔ گو کہ یہ پابندی انتہائی غیر موثر ثابت ہوئی جس سے جعلی زہر آلود شراب بنانے والوں اور پولیس والوں کی چاندی ہوگئی ۔ لوگ ابھی بھی مے نوشی کرتے ہیں اور دبا کر تے لیکن بس پولیس والوں کو ان دل جلوں کو ہراساں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور یہ دل جلے پیٹ بھر شراپ کی پر پاکستان کو برا بھلا کہنے پر تل جاتے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ ٹن ٹنا تو ختم ہوا۔ایک تو دھارمک ہندو بھی شراب کے مخالف ہیں دوسرا وہ تو پاکستانی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے بھی زیادہ متعصب اور تنگ نظر ثابت ہوئی۔ مودی نے ایک ایک کرکے پورے معاشرے سے منافقت اور جھوٹے سیکولرزم کے پرت چاک کرنا شروع کردیے۔ جو سرحدی لکیریں مٹانے کی کوشش کرتے تھے وہ اب باڑ لگانے کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت میں ہی عافیت نظر آنے لگی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی قابل قبول ہوگیا ہے تاوقتیکہ انہیں نظر اندازنہ کیا جائے۔
میں کہتا ہوں کہ مودی نے 2014میں اقتدار میں آکر وہ کارنامے سر انجام دیے ہیں کہ جنکا ہم جتنا شکریہ اداکریں ہو کم ہے۔