اللہ کے بعد چین پر بھروسہ


تحریر:سلمان احمد لالی۔

پاکستان کے معاشی مسائل اور حالات میں مایوس کن حد تک خرابی اور موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارہ کونسل آن فارن ریلیشنز (سی ایف آر)دنیا بھر کے ممالک کے ڈیفالٹ کے خطرات کو ٹریک کرتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق اس ضمن میں پاکستان کا سکور10ہے یعنی اس اسکور کے تحت پاکستان کے 50فیصد یا اس سے زیادہ ڈیفالٹ کرنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان اس انڈیکس میں سری لنکا، یوکرین، وینزویلا، گھانا اور تیونس جیسے ممالک کے ساتھ کھڑا ہے ۔اب اسکا موازنہ اگر بھارت اور بنگلہ دیش سے کیا جائے تو بھارت کا اسکور 1 ہے جبکہ بنگلہ دیش کا اسکور 3ہے۔ یعنی ان دو جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ دوچند ہے۔
حالیہ دنوں میں قدرے تاخیر سے لیکن ایک درست اقدام حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے اور وہ ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایندھن پر سبسڈیز کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے مطابق ملک اس طرح کی رعایت کا متحمل نہیں ہو سکتابالخصوص تیل کی عالمی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد۔
پاکستان کے پاس دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ایک ہی راستہ ہےکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو بحال کیا جائے، اس سے دیگر قرض خواہوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ سعودی عرب کےحوالے سے تو یہ اطلاعات موجود ہی ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کے لاگو کردہ fiscal discipline پر عمل در آمد کیا جاتا ہے تو ریاض پاکستان کو مالیاتی تعاون دینے کی بہتر پوزیشن میں ہوگا۔
فی الحال اسلام آباد سے خبر آئی ہے کہ دوست ملک چین کے ساتھ بھی بڑے مالیاتی پیکج پر گفت و شنید ہورہی ہے۔
موجودہ سیاسی بحران ملکی معیشت کیلئے ذہر قاتل ہے، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات سے مالیاتی بحران شدید تر ہونے کا امکان ہے اور جبکہ انتخابات موخر کرنے سے سیاسی بحران کے قابو سے باہر نکلنے کا خدشہ ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے لیکن جو قوتیں ان جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھا سکتی ہیں انکی اپنی پوزیشن حالیہ سیاسی واقعات کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہے اور عدم اعتماد کا فقدان ہے۔
تیل کی قیمتوں سے آئی ایم ایف پیکج کی بحالی مشروط ہے اور صرف اسی فیصلے سے روپے کے قدر میں استحکام آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پیکیج کی بحالی کے بعد امید رکھنی چاہیے کہ فاریکس مارکیٹ میں روپے کے خلاف منفی رجحان کو ریورس کرنے میں مدد ملے گی۔
اب آتے ہیں چین کی جانب ۔ پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں جوہر شعبے پر محیط ہیں۔ پاکستان بی آر آئی کے فلیگ شپ پروگرام سی پیک کی کامیابی کیلئے کلیدی شراکت دار ہے۔ اور چین پاکستان میں موجودہ صورتحال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ گو کہ چینی حکومت کی جانب سے بیشتر معاملات پر بند کمروں میں ہی بات کرنے کی روایت ہے تاہم اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چین کیلئے پاکستان کی حمایت اور مالیاتی امداد سی پیک کی کامیاب تکمیل اورملک کو امریکی لابی میں جانے سے روکنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ ذرا نقشے پر نظر دوڑائیں۔ امریکہ چین کا انڈوپیسفک ریجن میں نئے اتحادوں اور ملٹری اڈوں کے ذریعے گھیر رہا ہے۔ فرض کر لیجئے کہ کسی حادثہ سے مس کیلکولیشن کے بنا پر انڈو پیسفک کی تمام بحری گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور ادھر خلیج بنگال میں بھارت امریکی بحری بیڑے کے تعاون سے ناکہ بندی کرتا ہے تو چین کے پاس اپنی سپلائی لائنیں کھلی رکھنے کیلئے دو راستے بچیں گے۔ ایک پاکستان کی اقتصادی راہداری اور دوسرا وسطی ایشیا سے یورپ جانے والا طویل خشکی کا راستہ۔ اگر پاکستان کا موجودہ سیاسی اور معاشی بحران شدید ترہوکر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کردے تو چین کی جزوی ناکہ بندی مکمل ہوجاتی ہے۔ پاکستان کا استحکام بحیرہ عرب میں سمندری گزرگاہوں کی حفاظت کیلئے بہت ضروری ہے۔ ایسے میں چین کا پاکستان کی مدد کیلئے آنا منطقی طور پر درست ہے۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر چین کے ساتھ بہت زیادہ توقعات درست عمل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور امریکہ سی پیک کو عضو معطل بنائے بغیر ایک بہتر معاہدے کی امید کرنا حقائق کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔
اگر چین پاکستان کے ساتھ مالی تعاون میں اضافہ کرے پاکستان کے ذمہ واجب الادا رقوم کی ادائیگی کو ری شیڈول کرے تو کسی حد تک ریلیف ملنے کی توقع ہے لیکن جب تک ملک کو سخت ڈسپلن کا پابندی نہیں بنایا جاتا اور اسٹرکچرل اصلاحات نہیں کی جاتیں پاکستان اسی دائرے کے گرد گھومتا رہے گا۔
آئی ایم ایف نہیں چاہتا کہ اسکی جانب سے فراہم کردہ رقم کو چین کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق چین ایسی صورتحال میں خاموشی سے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ اسکا اعلان کئی عوامل کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات میں تعطل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
لیکن کچھ ذکر پاکستان تحریک انصاف کے موقف کا بھی ہوجائے ۔ اوپر بیان کی گئی تمام باتیں پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر جو ضروری اقدامات ہیں ان کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ تاہم اس بحران کا آغاز تحریک عد م اعتماد سے ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومت میں شامل پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا موقف ہے کہ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ داران اور وہ عناصر ہیں جو عمران خان کی حکومت گرانے کا موجب بنے۔
اڑھائی سال کورونا وبا سے کامیابی سے نمٹنے کے بعد حکومتی اقدامات نے معیشت کو سنبھالا اور تمام مثبت اشاریے نظر آرہے تھے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ایک ارب ڈالر ماہانہ سے کم ہو چکا تھا۔ غیر ضروری در آمدات کو ختم کرکے اس میں مزید کمی لائی جاسکتی تھی۔ ملک مجموعی طور پر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے تحریک انصاف کے تمام اقدامات کو نقصان پہنچایا۔ بغیر مینڈیٹ آنے والی حکومت سخت معاشی فیصلے کرنےکے قابل نہ تھی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں غیر معمولی تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں شدید گراوٹ نظر آئی ، اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا اور ملک معاشی بحران سے دوچار ہو گیا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More