تحریر۔ عارف الحق عارف
بدھ ۵ اکتوبر بروز کو ہمارا پورا دن بہت ہی مصروف گزرا۔اس کا اندازہ لگانے کےلئے صرف یہ جاننا بہتر ہوگا کہ ہم نے صبح سے رات کے ۸ بجے تک ہمارے steps کی تعداد ۲۲۶۵۹ ہوچکی تھی۔ہمارے پروگرام میں توپ کاپی اور قصر ڈولما باغیچہ دیکھنا شامل تھے۔لیکن ایک دن پہلے استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ اور ہمارے ترک دوست ڈاکٹر خلیل طوقار نے اپنی یونیورسٹی کے شعبہ میں پاک ترک تعلقات پر ایک سیمنار میں شرکت کی دعوت دی۔جس کا وقت ساڑھے تین بجے مقرر تھا۔ہمیں ہر حال میں اس میں شرکت کےلئے یہاں پہچان ضروری تھا۔ ہمارے برخوردار ساتھی گائیڈ عبدالجبار نے بتایا تھا کہ توپ کاپی میں کافی وقت لگ سکتاہے اس لئے ہمیں صبح جتنا جلدی ہوسکے وہاں پہچنا ہوگا۔ہم جلدی تیار ہوئے اور ناشتے کے بعد منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ٹرام کے اسٹیشن تک پیدل راستہ طے کیا اور ٹرام میں سوار ہوگئے۔ٹرام میں بڑا رش تھا۔باہر بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا آیا صوفیہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو بارش تیز ہوگئی ہمارے پاس اس سے بچاؤ کےلئے چھتری بھی نہیں تھی۔توپ کاپی اس کے قریب ہی ہے یہی ہماری منزل مقصود تھی۔اس وقت دس بجے چکے تھے۔سڑک کے دوسری جانب ایک دکان کے یہاں پناہ لی۔اب بارش رک گئی تھی لیکن وقفے وقفے سے دوباہ شروع ہوجاتی تھی۔چھتری کی تلاش شروع ہوئی اور ہم نے اپنے پرس سے اس کےلئے رقم نکالنی چاہی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاؤچ میں ہمارا بٹوا اور دوسری ساری چیزیں محفوظ ہیں اس کی زپ بھی بند ہے لیکن اس میں رقم موجود نہیں۔استنبول کا ماہر جیب تراش بڑی مہارت سے اپنا کام کر چکا تھا۔ شکر ہے۔زیادہ رقم نہیں تھی،بقیہ ساری چیزیں محفوظ تھیں۔اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔اس واقعہ پر ہمارا پہلا تاثر یہ تھا کہ کاش ارطغرل ،عثمان غازی کی مفتوحہ سر زمیں اور ایردوان کے موجودہ ترکیہ میں ایسا نہ ہوتا۔لیکن چند لوگوں کے جرائم کی وجہ سے پورے ملک کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔لیکن ہمیں یہ تعجب ضرور ہوا کہ جیب تراشوں نے ترکیہ میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا ہوا ہے اور وہ انڈیا کے بنارسی ٹھگوں اور پنجاب کے گجراتی جیب تراش ماہرین سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔اس لمحے ہمیں کشمیر کے ایک دانا بابا کا سنا ہوا ایک واقعہ یاد آگیا۔ یہ پاکستان بننے سے پہلےکی بات ہے۔گجرات کے جیب تراش ہجوم کی جگہوں پر ریلوے اسٹیشنوں پر،ریل گاڑیوں میں، بسوں کے اڈوں اور بسوں میں بڑی صفائی سے جیبوں سے چیزیں نکالنے کی اپنی وارداتوں کی وجہ سے بڑے مشہور تھے۔کشمیری بابا نے کہا کہ وہ یہ بات نہیں مانتا کہ کوئی کیسے جیب سے رقم نکال سکتا ہے۔میں لاہور جارہا ہوں، دیکھتا ہوں کہ کوئی کیسے میری جیب سے رقم نکال سکتا ہے۔اس زمانے میں ایک ایک روپے کا چاندی کا سکہ ہوتا تھا۔وہ جیب میں کچھ سکے ڈال کر لاہور کے لئے رونہ ہوا اور دوران سفر اپنی جیب پربڑی گہری نظر رکھی اور بالآخر لاہور پہنچ گیا۔اس نے جیب چیک کی تو سکے اب بھی موجود تھے۔ وہ بڑا خوش ہوا۔ لاہور میں اس نے بڑے فخر کے ساتھ اپنے دوستوں کی ایک محفل میں اس کا واقعہ کاذکر کیا۔اسی محفل میں موجود ایک صاحب بولے ۔ بابا جی، آپ کے کھوٹے سکوں کو آخر کون نکالے گا۔اس پر بابا بڑا حیران ہواکیوں کہ سکوں کے کھوٹا ہونے کے راز سے صرف وہ خود واقف تھا۔اس شخص نے بتایا کہ آپ کے اس ارادے سے سفر کا علم ہمیں آپ کی روانگی کے وقت ہی ہو چکا تھا۔ جب آپ گجرات کی عمل داری میں داخل ہوئے تو ۹ جیب تراشوں نے اپنے اپنے اسٹیشن پر ۹ بار آپ کی جیب کی تلاشی لی اور ہر بار جیب سے دو کھوٹے سکے نکلے۔بھلا وہ ان سکوں کا کیا کرتے۔اس لئے انہوں آپ کی امانت آپ کی جیب میں واپس رکھ دی۔ اب حیران ہونے کی باری کشمیری بابے کی تھی۔اس لئے اس کشمیری بابے کی طرح ہم جیسے کشمیری بابے کو بھی استنبول کے جیب کتروں کی ماہرانہ کاروئی کا بلکل پتہ نہیں چلا اور اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ انہوں نے کاروائی کب اور کس قدر مہارت سے کی۔ہمیں اس واردات میں اپنے نقصان سے زیادہ اس بات کا صدمہ تھا کہ ترکیہ جیسے ملک میں بھی ان سماج دشمن عناصر نے اپنے ملک کو بدنام کر رکھا ہے۔
بارش اب بھی جاری تھی۔عبد الجبار چھتری خرید لائے۔ہم توپ کاپی کی طرف پہنچے تو ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے ہر رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے زائرین کی طویل قطار دیکھ کر عبد الجبار کی بات درست معلوم ہوئی۔کہ پہلے اس قدر زائرین کی موجودگی میں اپنی باری کب آئے گی ؟ ہم لائن میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے ہم سمیت کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا کہ لائن سے الگ ہو جاؤ وہ دوسرے راستے اند جانے کا بندوبست کرے گا۔ہمیں صرف ۳۰ لیرا زیادہ دے کر ۴۵۰ لیتا والا ٹکٹ ۴۸۰ لیرا میں اس سے خریدنا ہوگا۔ورنہ طویل قطار ہی کے ذریعہ ٹکٹ کے کاؤنٹر تک جانا ہو گا۔ہم نے یہی طریقہ اختیار کیا اور توپ کاپی کے دوسری طرف پہلے اترائی اور پھر چڑھائی کا کافی سفر طے کرنے بعد ایک گائیڈ کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔تو وہاں بھی زائرین کا جم غفیر تھا۔پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جس طرح ہمارے ملک میں کچھ محنتانہ دے کر ہر جائز کام بھی کرانے کےلئے ہر دفتر کے باہر لوگ کام کرتے ہیں۔ترکی بھی اس معاملے میں ہم سے پیچھے نہیں اور یہ ایک بڑا سیٹ آپ ہے۔جو بڑے منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔
اندر داخل ہوئے تو سمندر کے کنارے قصر توپ کاپی کی وسعت اور اس کے محلات کا خوبصورت طرز تعمیر اور سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کے دور کے طرز حکمرانی،ان کی رہائش گا ہیں، ان کے حرم، قصر کے اندر والدہ سلطان اور ملکہ کی رہائش گاہیں،آغاؤں کے رہنے اور ہزاروں ملازمین اور غریبوں کے لئے بہت بڑے کچن، ان کے نظام عدل کے مقامات ، بیرونی ملکوں کے سربراہوں اور سفارتی وفود سے ملاقات کے چیمبر، ملاقات سے قبل ان کو ہدایات کا کمرہ،محل کی مسجد صفہ،ان کی لائبریری، ان کے بڑے بڑے باغ اور باغیچے اور شہزادوں کی تربیت گاہیں دیکھ کر ان کے جبروت اور دبدبے کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ واقعی ۶ سو سال تک ایک بڑی سپر پاور تھے اور خاص طور پر سلیمان قانونی کے زمانے میں تو ان کی حکمرانی تین براعظموں اور تین چوتھائی سمندر تک پر وسیع ہوچکی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کی خلافت عباسیہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ختم ہوچکی تھی اور مسلمان کئی ذ خود مختار ریاستوں اور راج والوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔پھر سلیمان قانونی کے والد سلطان سلیم نے مسلمانوں کو ایک بارعب اور دور اندیش قیادت فراہم کی اور اپنی سلطنت کو خلافت میں بدل دیا اور اس کا دائرہ سوائے ہندوستان پورے عالم اسلام تک پھیلا دیا اور انہوں نے اعلان کردیا کہ اب وہ سلطان نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں اس طر ح وہ پہلے خلیفہ بن گئے۔ان کی خلافت کو ان کے لائق بیٹے اور جانشین سلیمان نے عزت بھی دی ، طاقت بھی فراہم کی اور بڑا استحکام بخشا اور اسے بام عروج تک بھی پہنچایا اور وہ مسلمانوں کے حقیقی محافظ بن گئے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے دور ہی میں محلاتی اور بیگماتی سازشوں اور دجل و فریب کے ذریعہ اقتداراور حکمرانی اور مال و زر حاصل کرنے کی ہوس نے ان کی آنکھوں پر بھی پردہ ڈالا اور پہلے انہوں نے خود ان سازشوں ہی کی وجہ سے اپنی پہلی کنیز ماہ دوراں کے لائق اور ذہین عوام میں مقبول بڑے بیٹے مصطفے کو خود کلاسوں کے حوالے کردیا اور ان کی خلافت ان کے انتقال کے بعد کمزو کے نااہل اور مشروب خبیثہ میں غرق حریم سلطان سے بڑے بیٹے کے حوالے ہوگئی۔ہماری تاریخ ان جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
جاری ہے۔