سلمان احمد لالی
حالیہ دنوں میں صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ جلد انقرہ کا دورہ کریں گے، یاد رہے کہ ترک صدر کی جانب سے اس یکطرفہ اعلان کے باوجود ابھی تک اسرائیل کی جانب سے باضابطہ طور کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ دونوں ممالک ہرزوگ کے انقرہ دورے کی شرائط اور شیڈول پر بات چیت کر رہے ہیں جس کے بعد مستقبل قریب میں ہی یہ دورہ ہو سکتاہے۔
اردوان نے اس حوالے سے کہا کہ ہرزوگ کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرسکتا ہے۔
ترکی کی جانب سے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا عمل کئی ماہ سے جاری ہے۔ ابھی تک متحدہ عرب امارات، مصر، آرمینیا اور اسرائیل جیسے ممالک کے تعلقات میں بہتری کی کوششیں جاری ہیں ، اطلاعات ہیں آئندہ ماہ اردوان کے دورہ سعودی عرب سے دونوں ممالک کے درمیان سردمہری کو ختم کرنے کا موقع ملے گا جو خاشقجی قتل کے بعد شدید ترہوگئی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ترکی کی دلچسپی کا اسرائیل کی جانب سے جواب اتنی گرم جوشی سے نہیں دیا جارہا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل ان تعلقات کو معمول پر نہیں لانا چاہتا لیکن تل ابیب اس بارے میں محتاط ضرور ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے ترکی جیسے مسلم اکثریتی ملک کی دعوت کو رد نہیں کیا جاسکتا ، یہ ایک پالیسی ہے جس پر تسلسل کے ساتھ عمل جاری ہے۔
گزشتہ جولائی میں ہرزوگ کے عہدہ سنبھالنے پر اردوان نے انہیں فون کر کے مبارکباد دی۔جس کے بعد سے اب دونوں صدور کے درمیان تین مرتبہ بات ہو چکی ہے جن کے دوران اردوان نے ہرزوگ کے انقرہ دورے کی دعوت دی۔
کچھ دن قبل ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوغلو نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو فون کرکے خیریت دریافت کی اور کورونا سے جلد صحتیابی کی خواہشات کا اظہار کیا۔ یہ 13برسوں میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان پہلا ٹیلی فونک رابطہ تھا۔
ترکی ، اسرائیل تعلقات میں خرابی کا پس منظر:
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی خرابی کی ایک بنیادی وجہ ہیں۔ دونوں ممالک میں کشیدگی کا نقطہ عروج 2010میں پیش آنے والا واقعہ بنا جب غزہ کیلئے جانے والے ترک امدادی بحری جہاز ماوی مرمرہ پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا۔ جس میں دس امدادی کارکنوں کی موت واقع ہوئی۔اسکے علاوہ اسرائیل ترکی پر حماس کی حمایت اور امداد کا الزام عائد کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایسٹ میڈ نامی پائپ لائن منصوبے اور ایران سمیت کئی معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔
جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان، انٹیلی جنس اور عسکری شعبوں میں تعاون کا سلسلہ متاثر ہوا لیکن حیران کن طور پر سیاحت اور دوطرفہ تجارت نہ صر ف جاری رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاست اور معیشت کو علیحدہ علیحدہ رکھنے پر اتفاق رہا۔
اسکے بعد بھی بعض مواقع پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی مثالیں ملتی ہیں۔ نومبر2012میں جب شام خانہ جنگی عروج پر تھی تو اسرائیل نے سعودی عرب اور ارددن کو جانے والی ترک برآمدات کو زمینی گزرگاہ فراہم کی۔اسکے علاوہ ایک موقع پر دو اسرائیلی فوجی طیاروں کو استنبول ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی اجازت دی گئی۔
لیکن اگست 2016 میں انقرہ اور تل ابیب نے سفارتی تعلقات میں بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے جس سے معاشی تعلقات میں بہتری واقع ہوئی۔ گو کہ فلسطینی فیکٹر دوطرفہ تعلقات میں خرابی کی وجہ بنتا رہتا ہے جیسا کہ 2018 میں ہوا جب امریکہ کی جانب سے سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا گیا تو ترکی نے اسرائیلی سفیر کو واپس بھیج دیا جس کا اسرائیل نے ترکی کے سفیر کو واپس بھیج کر جواب دیا۔
تعلقات میں بہتری کی خواہش :
دوطرفہ تعلقات میں فلسطین کا مسئلہ مستقل نوعیت کا ہے جس کے حل کی فوری طور پر کوئی امید نہیں ایسے میں انقرہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کی کچھ اہم سیاسی وجوہات ہیں۔
ماہرین کے مطابق آئندہ برس ترکی کے صدارتی انتخابات سے قبل اردوان بائیڈن انتظامیہ سے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا پہلو ترکی میں افراط زر اور مہنگائی کا بحران ہے جو انقرہ کو مختلف سیاسی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرتا ہے کیوں کہ اردوان اس معاشی بحران کے پیچھے سیاسی محرکات دیکھتے ہیں۔
اسی لیے گزشتہ برس نومبر میں جاسوسی کے الزامات میں زیر حراست اسرائیلی جوڑے کو رہا کرکے تل ابیب کو ممنون ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔
اسکے علاوہ ترکی یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ اسرائیل پہلے کی طرح خطے میں تنہا نہیں رہا ۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام اور سعودی عرب کے ساتھ خفیہ روابط کے بعد مشرق وسطیٰ میں تزویراتی حالات نیا رخ اختیار کر چکے ہیں۔
تل ابیب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے پیچھے انقرہ کی یہ خواہش بھی کارفرما ہے کہ یونان اور قبرص کے ساتھ اسرائیلی پائپ لائن منصوبہ جسے ایسٹ میڈ کہا جاتا ہے میں اسرائیل کو شامل کیا جائے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں امریکہ کی جانب سے اس گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت ترک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر ترک حکومت بہت خوش ہے۔ ترکی کا موقف ہے کہ مشرقی میڈ ٹرینین سے گزرنے والا کوئی منصوبہ اسکے بغیر قابل عمل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ تک اسرائیل کی آف شور گیس فراہمی کا یہ منصوبہ ترکی کی مخالفت کا سامنا کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس منصوبے کی سیاسی حمایت ترک کرنے کے بعد اردوان نے پیشکش کی ہے کہ ترکی اس منصوبے کا حصہ بننے کو تیار ہے لیکن یونان اور قبرص جو ترکی کے خطے میں مخالف ممالک ہیں ، انکا اس پر راضی ہونا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی خبر آتے ہی اسرائیلی حکام نے یونان اور قبرص کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ انقرہ کے ساتھ تعلقات میں ان دونوں ممالک کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے علامتی اقدامات ایک بات ہے جبکہ ان سے ٹھوس سیاسی مقاصد کا حصول ایک طویل اور دشوار عمل ہے ۔ اسرائیل چاہے گا کہ ترکی کے ساتھ مفاہمت کا عمل محض سفارتی یا دوطرفہ تجارت میں بہتری سے بڑھ کر اسے فائدہ پہنچائے۔ انقرہ حماس کی حمایت سے ہاتھ اٹھائے اور فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی لائے۔ اسرائیل ترکی کے ساتھ تعلقات میں بہتری کو اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کے قیام کیلئے بھی استعمال بھی کرنا چاہے گا۔ یوں ماضی کے برعکس تل ابیب ترکی کے ساتھ اپنی شرائط پر بات چیت کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہے۔