انقرہ(پاک ترک نیوز) بدلتے وقت اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انقرہ کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی لائی گئی ہے۔ خارجہ پالیسی کی قلیل مدتی ترجیحات میں علاقائی حریفوں بشمول آرمینیا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا شامل ہے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی کا مجموعی جائزہ کچھ عرصہ قبل انقرہ میں ایوان صدر میں پیش کیا گیا جس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ ترکی کے اندرونی مسائل سے نمٹنے میں ترکی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک اسکی سفارتی کارکردگی پر ہے۔
ترکی اپنے ارد گرد تمام ممالک سے تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تاکہ اسکی سرحدیں محفوظ رہیں اور اسکے تجارتی مفادات کو زک نہ پہنچے۔
ترکی اور آرمینیا کے سفارتکاروں نے ماسکو میں ملاقات کی جو تین دہائیوں کے بعد پہلا ایسا رابطہ تھا۔ مذاکرات میں مفاہمت، سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے قیام کیلئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اعتماد سازی کیلئے اقدامات کے سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان چارٹر پروازیں بھی شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔
آرمینائی باشندوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اہم مذہبی اور تاریخی مقامات کے حوالے سے بھی جائزہ لیا جائے گا تاکہ سیاحت کو فروغ حاصل ہو۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات
ترکی اور اسرائیل کے درمیان حالیہ دنوں میں روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ استنبول میں مبینہ طورپر جاسوسی کے الزام پر حراست میں لئے گئے اسرائیلی جوڑے کی رہائی سے بھی دونوں ممالک کے درمیان پرف پگھلی ہے۔
دونوں ممالک کے صدور اور وزرائے خارجہ کے درمیان فون پر بات چیت کے بعدتوقع کی جاری ہے کہ انقرہ کی جانب سے تل ابیب کے حوالے سے نرم زبان کا استعمال کیا جائے گا جبکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا اگلا مرحلہ سفیروں کی تقرری کا ہوگا۔
لیبیا کے ساتھ تعلقات
صدارتی بریفنگ میں لیبیا کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ بالخصوص حالیہ پیش رفت جس کی وجہ سے وہاں انتخابات ملتوی کرنا پڑے۔ترکی مشرقی بحیرہ روم میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے لیبیا کے ساتھ تعلقات کو مزیدگہرا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انقرہ میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ٹریپولی میں انقرہ کی حامی حکومت کی موجودگی ضروری ہے۔
دیگر ممالک
مصر کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں ابھی وقت لگے گا۔ جبکہ انقرہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ شروع کیے گئے مفاہمتی عمل کو سعودی عرب تک بڑھانا چاہتا ہے۔