ایتھنز(پاک ترک نیوز)
15جولائی 2016کو ترکی کی جمہوریت اور اسکے ہر دلعزیز صدررجب طیب اردوان کےخلاف ناکام بغاوت میں فیٹو نامی دہشتگرد تنظیم نےکلیدی کردار اداکیا۔ بغاوت کے بعد متعدد فیٹو ارکان ترکی سے بھاگ کر یونان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انقرہ نے بارہا یونان سے مطالبہ کیاکہ بھاگنے والے مطلوب افراد کو واپس بھیجاجائے تاکہ وہ قانون کا سامنا کر سکیں لیکن یونان نے نہ صرف یہ کہ ایسا کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اب اس نے انتہائی مطلوب ترین ارکان کو بیلجئیم ، جرمنی اور کینیڈا بھیجنے میں مدد کی ہے۔ یاد رہے کہ اس بغاوت کے مبینہ مرکزی کردار فتح اللہ گولن امریکہ میں روپوش ہیں اور انہیں امریکی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
دیگر ممالک بھیجے جانے والے ارکان ترک فوج کے سابق افسران و اہلکار ہیں جو بغاوت ناکام ہونے پر ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے یونان پہنچنے تھے۔
گو کہ یونان کا ترک باغیوں کی حمایت کرنا مداخلت کےمترادف ہے اسکے باوجود انہیں پناہ دی گئی۔
اور ابھی بالکل ایک جیمز بانڈ طرز کے بھونڈے خفیہ آپریشن میں انہیں دیگر ممالک میں بھیجاگیا۔ مغربی منافقت کا اس سے بڑا ظہار کیا ہوگا کہ ترکی کو مطلوب ریاست کے باغیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں یہ ممالک پیش پیش ہیں۔
یونان نے فیٹو اراکین کو پانچ سال تک ایتھنز کے قریب سرکاری رہائش گاہوں میں رہنے دیا۔ان کی حفاظت کیلئے 100 پولیس اہلکار بھی تعینات کیے رکھے۔
یونان نے جب انتہائی مطلوب آٹھ مفروروں کو ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو دیگر دہشتگردوں نے بھی اس حوصلہ پا کر یونان کا رخ کیا۔ اور ایک انداز ے کے مطابق گزشتہ پابچ برس میں اس تنظیم کے 25000اراکین یونان فرار ہوگئے۔جہاں سے انہیں دیگر یورپی و مغربی ممالک نے پناہ دے دی۔