تل ابیب(پاک ترک نیوز) امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے کرانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ جلد طے پانے کا امکان اس لیے بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگلے ماہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں امریکی صدر جوبائیڈن سعودی عرب بھی جائیں گے اور ممکنہ طور پر اس اہم معاملے پر بات چیت کریں گے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لیپید نے آرمی ریڈیو پر گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی ہمارے مفاد میں ہے۔ معاہدۂ ابراہیمی کا طویل المدتی ہدف یہ بھی تھا کہ خلیجی ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد سعودی عرب سے کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا جائے۔
سعودی عرب سے معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لیے ہم امریکا اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور یہ مشترکہ کاوشیں جلد ہی کسی مثبت نتیجے تک پہنچ جائیں گی۔
تاہم اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سعودی عرب سے معاہدہ طے پانا اتنا آسان نہیں جتنا دوسرے عرب ممالک کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا کیوں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے سیکیورٹی مفادات میں اتفاق میں وقت لگے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد اب امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے کرانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ عرب ممالک بھی سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل بحیرہ احمر میں واقع دو جزائر ’’ تیران اور صنافیر‘‘ کی ملکیت سعودی عرب کو دینے کو تیار ہے۔ سعودی عرب 80 کی دہائی سے ان جزائر کی ملکیت کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔
ستر کی دہائی کے آخر میں ان جزائر کی ملکیت سعودی عرب کو منتقلی کے لیے مصری پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ نے منظوری دے دی تھی لیکن 1979 کے اسرائیل مصر امن معاہدے کی وجہ سے اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے کیوں کہ اس معاہدے کے تحت جزائر کی منتقلی کے لیے اب اسرائیل کی رضامندی بھی ضروری ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سب سے پہلے 1979 میں مصر اور پھر 1994 میں اردن نے بحال کیے تھے تاہم 2020 میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہد ابراہیمی کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد گزشتہ ایک برس میں اسرائلی وفد بشمول وزیر خارجہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے نہ تو واضح طور پر تردید سامنے آئی ہے اور نہ ہی تصدیق کی گئی ہے تاہم سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل سے فلسطین امن معاہدے پر عمل درآمد کا بارہا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔