ترکی ،اسرائیل دوستی:حماس کہا ں کھڑی ہے؟

 

تحریر:سلما ن احمد لالی

اسرائیل اور ترکی کےدرمیان سرمہری کے ایک طویل دور کے بعد برف پگھلی ہے ، ان تعلقات میں بگاڑ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس تعلق کو بگاڑنے اور پھر بنانے میں ایک ہی شخصیت کا ہاتھ ہے اور وہ ترک صدر رجب طیب اردوان ہیں۔

ترکی کے حماس کے ساتھ تعلقات:
ترکی اور اسرائیل کےدرمیان جب تعلقات انتہائی خراب تھے تو انقرہ کی جانب سے فلسطینی اسلامی گروپ حماس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا لیکن اب جبکہ ان دونوں ممالک نے ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے تو حماس کیلئے کئی چیلنجز پیدا ہوگئے ہیں۔
حماس جو کئی مغربی ممالک میں دہشتگرد تنظیم سمجھی جاتی ہے، کو ترکی جانب سے مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی رہی ہے بلکہ حماس کے کئی اعلیٰ عہدیداران طویل عرصے سے استنبول می مقیم ہیں۔
اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعال بھی اکثر ترکی کادورہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا اسکی علاقائی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔
ترکی کے اسرائیل کے ساتھ اختلافات کا پس منظر:
اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات 2010میں ترک بحری جہاز پر اسرائیلی حملے کے بعد کشیدہ ہوئے جو غزہ میں انسانی امداد لے کہ جارہا تھا۔
ایک وقت پہ تو دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیر بھی واپس بلا لیے لیکن یہ ساری صورتحال اتنی تیزی سے بدلی ہےکہ گزشتہ ہفتے ترک حکومت نے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کیلئے انقرہ میں ریڈ کاپٹ بچھایا اورانہیں قصر صدارت میں مسلح دستوں نے سلامی دی۔
اردوان کی سیاسی چالیں:
لیکن ایسا کیوں ہے کہ ترکی جس نے ایک دور میں اسرائیل کے خلاف عرب ممالک سے بھی زیادہ سخت موقف اپنایا وہ اب صیہونی ریاست کے ساتھ سب معمول پر لانا چاہتا ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں لیکن اس میں ترک صدر رجب طیب اردوان کی شخصیت ، انکی ذہانت اور معاملہ فہمی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ یورپی ممالک اور اسکے سیاستدانوں کے ساتھ قربت اور میل ملاپ کی وجہ سے ترک سفارتکار وں اور حکام نے بھی اردوان دور میں اپنی خارجہ پالیسی اہداف کو قومی مفاد کے تحت تشکیل دیا۔ صدر اردوان کیلئے ایک وقت میں اسلامی دنیا میں قد کاٹھ بڑھانے اور عرب ممالک کے ساتھ مسابقت میں انہیں پیچھے چھوڑنے کیلئے غزہ کا مسئلہ کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ عرب ممالک جو کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر اپنا دیرینہ موقف چھوڑ کر نئی راہوں پر چل نکلے تھے اور ترکی معاشی ترقی کے حصول کے بعد اپنے کھوئے ہوئے مقام کی تلاش میں سرگراں تھا، ایسے میں پوری اسلامی دنیا میں اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے پر صدر اردوان کو جو عزت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ جدید ترکی کے کسی حکمران کو نصیب نہیں ہوئی۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں یوٹرن کی وجہ:
لیکن اب جبکہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے تو اسکے پیچھے بھی بہت سے اہم سیاسی محرکات ہیں۔اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ کیلئے اپنی معیشت کو درپیش مسائل سے نمٹنا کسی اور اخلاقی اور سیاسی مسئلے سے زیادہ اہم ہے اور ایسے میں اسرائیل جو ایک اہم علاقائی اقتصادی طاقت ہے ، کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اردوان نے مغربی دنیا کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ اگر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں تو فرانس، امریکہ سمیت یورپی یونین کے ساتھ اپنے دیرینہ مسائل کے حل کیلئےبھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ تیار ہیں۔
انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مسلمان ممالک میں ترکی ہی وہ واحد ملک ہے جو سفارتی اور خارجہ امورمیں جذبات اور اخلاقیات کو آڑھے نہیں آنے دیتا بلکہ جذبات اور اخلاقیات کو جہاں ضرورت پڑھے ، ضرور استعمال کرتا ہے۔
حماس کاکیا ہوگا؟
مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کو ترکی کے حالیہ اقدامات پر تشویش ہے کیوں کہ انقرہ کی جانب سے اسے حاصل ہونے والی امداداور سہولیات میں کسی بھی وقت کمی ممکن ہے۔
اسرائیلی میڈیا میں بینیٹ حکومت اور ہرزوگ پر زور دیاگیا کہ انقرہ کے ساتھ روابط میں حماس کے ساتھ تعاون کا مسئلہ اٹھایا جائے ۔ تل ابیب کی جانب سے ترکی سےیہ مطالبہ بالکل متوقع تھا کہ وہ حماس رہنماوں کو استنبول میںپناہ دینا بندکرے۔ اگر انقرہ حماس رہنماوں کو ترکی چھوڑنے کا کہتا ہے تو انکےلیے تباہ حال بیرو ت اور ایران جانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق ہرزوگ کے دورہ انقرہ کے دوران اس معاملے پر اردوان سے انکی بات ہوئی ہے۔
حماس کا محتاط طرز عمل:
حماس کی جانب سے صیہونی قابض ریاست کے صدرکیلئے انقرہ میں ریڈ کارپیٹ بچھائے جانے پر مذمت تو کی گئی ہے لیکن اس میں استعمال ہونے والی زبان میں محتاط رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ مذمتی بیان میں نہ ہی ترکی کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی اردوان کا نام لیا گیا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حماس انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں خلل نہیں چاہتا۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ ترکی کے تل ابیت کے ساتھ روابط بحال ہونے کے بعد حماس کیلئے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ روابط میں آسانی ہوگی۔
اس سے قبل ان روابط کیلئے مصر نے سہولت کار کا کردار ادا کیا لیکن آئندہ کسی تنازعہ یا جنگ کی صورت میں انقرہ زیادہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔کیوں کہ مصر میں السیسی کی حکومت آنے کے بعد حماس کے قاہرہ سے تعلقات میں پہلے والی گرمجوشی نہیں ہے جو محمد مرسی کے مختصر دور حکومت کے دوران تھی۔
salmanlali87@gmail.com
Twitter: @salmalalipak

#2023#arabworld#BREAKINGNEWS#gaza#hamas#inflationinturkey#islamicworld#liradevalued#ottomanempire#PakTurkNews#palestine#salmanahmadlali#salmanlali#terrorism#turkeyisraelrelations#turkisheconomy#urdunewsErdoganIsraelpakturkfriendshipturkey