سلمان احمد لالی۔
ترکی کے مرکزی بینک کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر 2.4ارب ڈالر اضافے کے ساتھ 9.12ارب ہوگئے۔ جوکہ دو ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ یعنی جولائی آٹھ کو ترکی زر مبادلہ کے ذخائر 6.07ارب ڈالر تک گر گئے تھے۔
رواں ہفتے وزیر خزانہ نورالدین نباتی نے کہا کہ ترکی میں براہراست غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے اور آنے والے ہفتوں میں زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
حالیہ برسوں میں ترکی ڈالر ذخائر میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔ گزشتہ برس دسمبر میں لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سے سینٹرل بینک نے اربوں ڈالر مارکیٹ میں فروخت کیے تاکہ لیرا کی قدر مستحکم رہ سکے۔ یہ وہ ہی طریقہ ہے جو پاکستان میں اسحاق ڈار سے بارہا استعمال کیا۔
باوجود اسکے کہ ترکی دنیا کے 20بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے ، لیرا کی قدر میں 44فیصد کمی آئی جس کی وجہ سے افراط زر کی شرح 78.62فیصد تک بڑھ گئی۔ یہ صدر رجب طیب اردوان کے دودہائیوں پر محیط دور اقتدار میں سب سے زیادہ تھی۔ سینٹرل بین کے 2019سے 2020کے دوران فاریکس مارکیٹ کی 30ارب ڈالر کی ضرورت کو بھی پورا کیااور لیرا کو سپورٹ کرنے کیلئے 128ارب ڈالر فروخت کیے۔
ترکی فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کے تحت اپنا مالیاتی نظام چلاتا ہے۔ وہاں بھی کرنسی کی قدر اوپن مارکیٹ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ اور حالیہ برسوں میں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت کے دوران ترک مصنوعات پر ٹیرف لگانے اور ایس 400روس سے خریدنے کا فیصلہ آتے ہی لیرا کی قدر میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ جس کے بعد ملک میں افراط زر کے باعث عدم اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سب انتہائی احتیاط سے کی گئی منصوبہ بندی کے ذریعے کیا گیا ۔ بعض مخصوص افراد اور اداروں کی جانب سے ڈالر کی خریداری کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ اور قدر میں اضافہ ہونے لگا۔ اپوزیشن جماعتیں جو اردوان کی جماعت اے کے پی کے مقابلےمیں نہ صرف کمزور بھی ہیں اور متحد بھی نہیں کو بیانیہ بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ان تمام کی امور کی پاکستان کے سیاسی معاملات سے بہت مماثلت ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اردوان نے اسرائیل، آرمینیا ، خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے تعلقات کو بحال کرنے کی راہ اپنائی کیوں کہ وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ وہ اپنی مغرب مخالف پالیسیوں سے مقبول تو بہت ہوئے ہیں لیکن معیشت کی تمام کنجیاں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے پاس ہیں۔
امریکہ نے بھی بھانپ لیا کہ اگر ترکی معاشی طور پر بالکل خودمختار ہوگیا تو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اسی دوران یوکرین جنگ نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔ روس کے صدر نے جس طرح سے امریکی پابندیوں کا سامنا کیااور جو طریقہ استعمال کیا اس سے بہت سے ممالک کو یہ سبق ملا ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام انکی معیشت پر امریکی گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے انہیں بھی آہستہ آہستہ معاملات کو مختلف طریقے سے چلانا ہوگا۔
یہ بالکل پاکستان کی سی صورتحال ہے ،عمران خان کی حکومت کے گرنے کے بعد جہاں ڈالر کی قیمت 240روپے کو چھو رہی تھی ۔ بعض افراد دھڑا دھڑ ڈالر مارکیٹ سے خرید کرذخیرہ اندوزی کررہے تھے۔ ابھی گزشتہ ہفتے اچانک ڈالر کی قدر گرنے لگی اور روپے مستحکم ہونے لگا۔ پاکستان کے بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے گرانے پر تحقیقات کی گئیں تو ایک بہت بڑے اسکینڈل کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب پاکستان 2019کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گیا تو اس نے مرکزی بینک کے خودمختار بنانے اور کرنسی کی قدر مارکیٹ کے ذریعے طے کرنے کی شرائط عائد کیں۔ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر بھی بھارت کے 1990کے معاشی لبرلائزیشن پالیسیوں سے متاثر ہو کر بہت سے شعبوں کو ڈی ریگولیٹ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انکی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آئیں جن کا ذکر پھر کریں گے۔