صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں کئے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ انٹلی جنس کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔
استنبول میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ اسرائیل کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے ساتھ شدید اختلافات ہیں۔ فلسطین پالیسی ہمارے لئے ریڈ لائن ہے۔ اسرائیل کی فلسطین پالیسی کو قبول کرنا ترکی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ رحمانہ سلوک کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کی اعلیٰ قیادت اپنا رویہ درست کر لے تو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں اور اسے کسی مثبت پوائنٹ پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اسرائیل فلسطین کے لئے اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل کرے۔
واضح رہے کہ صدر ایردوان کے حالیہ دورہ آذربائیجان میں صدر الہام علی یوف نے ترکی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔ آرمینیا کے ساتھ کاراباخ کی حالیہ جنگ میں آذربائیجان نے ترک اور اسرائیلی ڈرون طیاروں کی مدد سے مسلح تنازعہ میں واضح برتری حاصل کی تھی۔ آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔
آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیون بیراموف نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکنزی سے رابطہ کیا تھا اور اس بات پر زور دیا کہ آذربائیجان اپنے دو اہم اتحادیوں ترکی اور اسرائیل کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات 2010 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے جب اسرائیلی بحریہ نے ترکی کے ایک بحری جہاز پر چھاپہ مارا جو غزہ کے لئے امدادی سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس چھاپے کے دوران ترکی کے 10 امدادی کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔
2013 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے ترکی سے معافی مانگی اور اس واقعہ پر ترکی کو 2 کروڑ ڈالر ہرجانہ ادا کیا۔ جو ترک بحری جہاز ماوی مارمرا کے متاثرین کے لئے تھا۔
2016 میں دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر بھیجے اور سفارتی تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے تھے۔
ترکی کو اسرائیل کی غیر قانونی یہودی بستیوں پر سخت اعتراض ہے اور وہ کھل کر اس پر سخت تنقید کرتا ہے۔