تحریر: سلمان احمد لالی
سنہ دوہزار اکیس کے اواخر میں ہونے والی سفارتی سرگرمیوں سے ہی یہ ظاہر ہو گیا کہ انقرہ کی نئے سال میں خارجہ پالیسی ترجیحات کیا ہوں گی۔ ترکی کی جانب سے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز کیا گیا، نئے سال میں ان اقدامات کے جاری رہنے کی توقع ہے۔ انقرہ روس، امریکہ اور یورپی یونین جیسے اہم فریقین کے ساتھ مختلف مسائل پر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ایسے معاملات پر تعاون اور مشاورت جاری رکھے ہوئے جن پر اتفاق رائے موجود ہے۔ایک طرف ترکی خلیجی ریاستوں، سعودی عرب، اسرائیل، مصراور آرمینیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے سفارتی اقدامات کر رہا ہے تو دوسری طرف بعض علاقائی معاملات پر بطور ثالث اور پاوربروکر کے بھی اہم کردار اداکر رہا ہے۔ اپنے منفرد محل وقوع، صدر اردوان کی قیادت میں معاشی و دفاعی شعبوں میں ترقی، نیٹو کی رکنیت، یہ تمام وہ پہلو ہیں ترکی کو خطے میں انتہائی اہم حیثیت بخشتے ہیں۔
2022 میں بھی توقع ہے کہ ترکی اس حیثیت میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ نئے برس میں ترکی کن سفارتی محاذوں پر سرگرم ہوگا اس کا تجزیہ صدر رجب طیب اردوان اور وزیر خارجہ چاوش اولو کی ملاقاتوں سے کرنا مفید ہوگا.اردوان نے 2022 کی پہلی ٹیلیفونک گفتگو اپنی روسی ہم منصب صدر ولادی میر پوٹن سے کی۔ گفتگو کے دوران اہم علاقائی و بین الاقوامی مسائل زیر بحث آئے، اسکے علاوہ دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائز ہ بھی لیا گیا۔ گفتگو میں لیبیا، شام اور کاکیشیا کے حوالے سے بھی بات کی گئی جہاں ترکی اور روس دونوں کے مفادات ہیں۔ گفتگو کے بعد ترکی کے صدارتی کمیونیکیشن دفتر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماوں نے ترکی اور روس کے درمیان تمام شعبوں مین تعاون کو فروغ دینے کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا، جبکہ کریملن نے اپنے بیان میں کہا کہ روس کی جانب سے امریکہ اور نیٹو کیلئے سیکیورٹی تجاویز پر بھی بات ہوئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ روسی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو اور امریکہ کیلئے روس یوکرین کشیدگی پر بات کرنے کیلئے ترکی سے بہتر کوئی آپشن موجود نہیں۔ ایسے وقت میں جب روس اور مغربی ممالک کے درمیان یوکرین کے معاملے پر کشید گی اپنے عروج پر ہے ، ترکی وزیر خارجہ کی اپنے امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن سے فون پر بات ہوئی جس کا موضوع یوکریں پر نیٹو اور روس کے درمیان کشیدگی تھا۔ کال میں دوطرفہ تعلقات، سوڈان اور ایتھیوپیا سرحدی بحران، کاکیشیا میں تزویراتی میکانزم کی بحالی، یوکرین کشیدگی پر آئیندہ نیٹو اور او ایس سی ای کے اجلاس سے قبل مشاورت اور تبادلہ خیال کیا گیا ۔
نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اردوان نے اعلان کیا کہ وہ فروری میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے، یہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انکا پہلا سعودی عرب کا دورہ ہوگا۔ اسکے علاوہ اردوان متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کریں گے جہاں کی ملاقات ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بھی زید سے ہو گی جنہوں نے گزشتہ برس نومبر میں طویل عرصہ کے بعد ترکی کا دورہ کیا۔متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایک پراجیکٹ کے حوالے سے پروپوزل بھی ترک حکومت کو جمع کرایا جس پر انقرہ گرمجوشی سے اور مثبت انداز میں غور کر رہا ہے۔ متحدہ امارات نے انقرہ کو قطر کے ساتھ مل کر کابل ائیرپورٹ چلانے کے حوالے سےبھی تجویز پیش کی جو بتانے کیلئے کافی ہے کہ امارات اور ترکی کے تعلقات پر جمی برف پگھل چکی ہے۔ ایک اور قابل ذکر واقعہ برسوں بعد ترکی اور آرمینیا کے درمیان روابط اور مذاکرات کی بحالی بھی ہے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات برسوں سے منجمد تھے۔ آرمینیا نے ترک مصنوعات پر عائد پابندی بھی ہٹا دی ہے۔
ان تمام پیش رفتوں سے ترکی کی خارجہ پالیسی کے تزویراتی پہلو عیاں ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ ترکی کو عالمی سٹیج پر حاصل ہونے والی اہمیت اور اثرو رسوخ کا اظہار بھی بخوبی ہوتا ہے۔ دوسرا پہلو ثالثی کا اہم کردار ہے جو ترکی علاقائی اور عالمی بحرانوں کے کیلئے ادا کرنا چاہے گا۔ اسی ضمن میں وزیر خارجہ نے نیٹو کے جنرل سیکرٹری اسٹولٹن برگ سے بھی فون پر بات کی، وزارت خارجہ کے مطابق کال کے دوران یوکرین پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور قازقستان میں سیاسی بحران کے علاوہ نیٹو اجلاس کے حوالےسے تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اسکے علاوہ وزیر خارجہ کی اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ بھی فون پر بات ہوئی، دونوں رہنماوں نے نیٹو، رشیا کونسل اجلاس، قازقستان، بوسنیا ہرزگوینا، کاکیشیا کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترکی ممکنہ طور پر روس ،مغرب کشید گی کے ساتھ ساتھ یوکرین، قازقستان پر ثالثی کا کردار کرے گا۔ اس کی ایک وجہ ان ممالک کے ترکی کے ساتھ قدیم تاریخی وثقافتی تعلقات بھی ہیں۔ یہ تمام معاملات ترکی کو ایک منفرد حیثیت بخشتے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر جس تیزی سے حالات آگے بڑھ رہے ہیں،اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ، یورپی یونین اس برس انقرہ کے دروازے پر بہت زیادہ دستک دیں گے۔ مجموعی طور پر ترکی کی خارجہ پالیسی کی طاقت اسکی لچک، جامع نقطہ نظر، اخلاص کے ساتھ ساتھ ملٹی لیٹرلزم کے اصولوں کےاحترام میں مضمر ہے