ترکیہ نے برصغیر سے یورپ تک الگ تجارتی راہداری منصوبے پر کام شروع کر دیا

 

 

 

 

 

از : سہیل شہریار
ترکیہ نے حالیہ جی۔ 20سربراہی اجلاس میں اتفاق کئے گئے ہندوستان-مشرق وسطی تجارتی راہداری منصوبے میں اسے شامل نہ کئے جانے کے بعد اس کے متبادل کےطور پر ایک اور تجارتی راہداری کی تعمیر کے لئے گفت و شنید تیز کر دی ہے۔یہ راہداری برصغیر کومتحدہ عرب امارات ،قطر ،عراق اور ترکیہ کے راستے یورپ سے ملائے گی۔
ترک وزارت خارجہ کی رپورٹ کے مطابق 20سربراہی اجلاس میں طے پانے والے ہندوستان-مشرق وسطی -یورپ تجارتی راہداری منصوبے میںایشیا کو یورپ سے ملانے والی تاریخی گزر گاہ ترکیہ کو مکمل طور پر نظر انداز کئے جانے کے بعد صدر اردوان نے کہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک تجارت کے لیے موزوں ترین راستہ ترکیہ سے گزرنا چاہیے۔جس کے بعد اب ان کے وزیر خارجہ حاکان فیدان نے شکوک و شبہات کو دوگنا کردیا ہے۔انہوں نے اپنی پریس بریفنگ میں اس بات پر اصرار کیا کہ ہندوستان-مشرق وسطی راہداری کا بنیادی ہدف تجارت نہیں۔ چنانچہ یہ منصوبہ بہتزیادہ جیوسٹریٹیجک خدشات کو ہوا دے رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انقرہ مجوزہ ہندوستان-مشرق وسطی راہداری منصوبے سے پیچھے ہٹ گیا ہے جو برصغیر سے مال متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کے راستے یورپی منڈیوں تک لے جائے گا۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو پسپا کرنے کی کوشش کے حامل امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت یافتہ اس منصوبے کے بارے میں ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ جیوسٹریٹیجک مقابلے کی عکاسی بھی کرتاہے۔جبکہ ترکیہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پُل کے طور پر اپنے روایتی کردار پر زور دینے کا خواہاں ہے۔جسکی تاریخ صدیوں پرانی ریشم کیشاہراہوں پر مشتمل ہے۔
چنانچہ اب ترکیہ نے ہندوستان-مشرق وسطی تجارتی راہداری منصوبےکی بجائے عراق ڈیولپمنٹ روڈ اقدام کے نام سے ایک متبادلپیش کیا ہے۔ فیدان کا کہنا تھا کہ عراق، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک منصوبے کے بارے میں بھرپور بات چیت جاری ہے۔ اور اس منصوبے کواگلے چند مہینوں میںحتمی شکل دے دی جائے گی۔ راہداری کا مجوزہ 17 ارب ڈالرکا منصوبہ متحدہ عرب امارات اور قطر کو تیل کی دولت سے مالا مال جنوبی عراق کی گرینڈ فاؤ بندرگاہ سےجوڑے گا۔ جو اسے 10 عراقی صوبوں سے ہوتا ہوا ترکی تک لے جائے گا۔ اس ضمن میں بغداد حکومت کی طرف سے جاری کردہ خاکوں کے مطابق یہ منصوبہ 1,200 کلومیٹر تیز رفتار ریل پر انحصار کرے گا۔اور متوازی سڑک نیٹ ورک اسکیم کے تین مراحل ہیں۔ جس کا پہلا مرحلہ 2028 میں اور آخری 2050 میں مکملہوگا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مالیاتی اور حفاظتی بنیادوں پراس منصوبے کی فزیبلٹی پر تحفظات ہیں۔ترکیہ کے پاس منصوبے کے مکمل دائرہ کار کو حاصل کرنے کے لیے فنانسنگ کی کمی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ مجوزہ سڑک کی تعمیر کے لیے متحدہ عرب امارات اور قطر کے تعاون پر انحصار کر رہا ہے۔ جبکہ ایسا کرنے کے لیے خلیجی ریاستوں کو سرمایہ کاری پر اچھے منافع کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جسکا فوری امکان نظر نہیں آ رہا ۔ر اس منصوبے کی طویل مدتی فزیبلٹی میںسیکیورٹی اور استحکام کے بارے میں ایسے مسائل ہیں جو دونوں تعمیرات کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔پھر عراق بے تحاشہ بدعنوانی، بوسیدہ انفراسٹرکچر، کمزور حکومت اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عراق اس منصوبے کی مالی معاونت کیسے کرے گا۔
ادھرتجزیہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کی رائے ہے کہ اگریہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تومجوز ہ جی۔ 20 منصوبے کی تیاری میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
ترک حکومت سے روابط رکھنے والے تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ متبادل تجویز کے باوجود، انقرہ اب بھی ہندوستان-مشرق وسطی اقدام میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ صدراردوان کو اگلے ہفتے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگر وہ امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرملاقات کریں ۔ اس کے علاوہ ملک خطے میں اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا سکتا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں حالیہ گرمجوشی کے بعدترکیہ خطے میں کافی سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔اور تجارتی مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے اور اس میں شریک ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

#ANKARA#g20#PakTurkNews#RecepTayyipErdoğanEuropeindiaturkey