ترکیہ کا نیاصدر کون ،فیصلہ اتوار کو ہوگا

انقرہ (پاک ترک نیوز) ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اتوار کو صدارتی انتخابات کے اہم دوڑ میں اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیک دار اوغلو کا سامنا کریں گے۔
ترک صدر اردوان گزشتہ 20سال سے زائد عرصے تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔
14مئی کو ہونیوالے اتنخاب میں ترک صدر اردوان نے 49.5 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ کلیک دار اوگلو نے پہلی دوڑ میں 44.8 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ تیسرے امیدوار، سینان اوگن، جو ترک عوام کے لیے ایک ناواقف شخصیت ہیں، نے الٹرا نیشنلسٹ اتحاد کی حمایت سے 5.2 فیصد ووٹ لیے۔کوئی بھی صدارتی امیدوار مطلوبہ 50فیصد ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا جس کے باعث صدارتی انتخاب دوسرے مرحلے میں پہنچ گیا ۔
دوسری جانب سینان نے رن آف میں ترک صدر اردوان کی حمایت کرنے کا انتخاب کیا جبکہ اے ٹی اے اتحاد جس نے ان کی حمایت کی تھی نے اپنا وزن کلیک دار اوگلو کے پلڑے میں ڈال دیا۔
14مئی کوہونیوالے اتنخابات میں میں قوم پرستوں کے ووٹوں میں اضافہ اور تیسرے امیدوار اور اتحاد کی قوم پرستانہ نوعیت نے انتخابی مہم سے پہلے دو ہفتے کے وقفے کے دوران اہم اثر ڈالا ہے۔
ترکیہ کے نئے صدر کو جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس میں بحران کا شکار ترک معیشت ،فروری میں آنیوالے زلزلے کے متاثرین کی بحالی جس میں 50ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے ،دہشت گردی اور شامی پناہ گزین کے مسائل شامل ہیں ۔
ترک صدر اردوان نے انتخابی مہم کے دوران مسلسل "دہشت گرد” گروپوں کے خلاف سخت بیان بازی کی ہے، قوم پرست ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بظاہر کوشش میں سیکورٹی کے مسائل کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔
انہوں نے اکثر دعویٰ کیا کہ ان کے مخالف کو کردستان ورکرز پارٹی (PKK) جیسے "دہشت گرد” گروہوں کی حمایت حاصل ہے، جس نے خود مختاری کے لیے 1980 کی دہائی سے جنگ چھیڑ رکھی ہے، اور گولن کی تحریک، جو اردوان کے سابق اتحادی تھے، جو 2016 کی بغاوت کا الزام لگا کر دشمن بن گئے تھے۔
اردوان نے کوئی مخصوص ٹائم لائن دیے بغیر ترکیہ کے زیر کنٹرول شمالی شام میں ہاؤسنگ پراجیکٹس پر عمل درآمد کے بعد تقریباً 10 لاکھ شامی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔
ترک صدر نے اپنی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے، بشمول ہائپر افراط زر اور قیمتی زندگی کے بحران کے باوجود شرح سود کو کم رکھنا شامل ہیں۔

 

#ANKARA#KemalKılıçdaroğlu#PakTurkNews#RecepTayyipErdoğan#turkia#turkpresidentturkey